کتاب: خواتین سے متعلق پچاس احادیث - صفحہ 51
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ کسی عورت کے لیے‘ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے‘ جائز نہیں ہے کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن اور رات کا سفر اختیار کرے۔(بخاری ومسلم) تخریج:صحیح بخاري،کتاب الصلاۃ،باب تقصیر الصلاۃ۔وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب سفر المرأۃ مع محرم۔ فوائد:(۱)اس میں ایک دن اور ایک رات کی مسافت کاذکر ہے اور بعض روایات میں دو دن اور بعض میں تین دن اور تین راتوں کا ذکر ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے والے کے حالات اور سوال کی نوعیت کے مطابق مختلف جواب دیے ہیں۔اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ ایک یا دو اور تین دنوں کا اعتبار نہیں۔اصل اعتبار سفر کا ہے کہ اتنی مسافت جس کو سفر کہا جاسکے‘ وہ تنہا عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔اس لیے جب تک خاوند یا محرم ساتھ نہ ہو اسے تنہا سفر نہیں کرنا چاہیے۔(۲)بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ حکم غیر واجب سفر کے لیے ہے۔لیکن جو چیز عورت پر فرض ہو‘ اس کی ادائیگی کے لیے وہ اکیلی بھی سفر کر سکتی ہے اگر کسی وجہ سے محرم کاساتھ جانا ممکن نہ ہو جیسے فریضۂ حج ہے اگر وہ صاحب استطاعت ہوگئی ہے تو حج اس پر فرض ہے۔اگر خاوند یا کوئی اور محرم نہیں ہے یا اس کے ساتھ جانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو وہ قابل اعتماد قافلے کی دیگر عورتوں کے ساتھ حج کے سفر پر جاسکتی ہے۔تاہم بعض علماء مطلقاً بغیر محرم کے عورت کے سفر کو ناجائز قرار دیتے ہیں‘ چاہے عام سفر ہو یا برائے حج ہو۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں دونوں رائیں تفصیل سے ذکر کی ہیں‘ لیکن کسی ایک رائے کو ترجیح نہیں دی ہے۔راقم کے ناقص خیال میں مخصوص حالات میں پہلی رائے پر عمل کرنے کی شرعاً گنجائش موجود ہے(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری‘ کتاب الحج‘ باب حج النساء وفقہ السنۃ)(۳)محرم سے مراد خاوندکے علاوہ عورت کے وہ قریبی رشتے دار