کتاب: خواتین اور شاپنگ - صفحہ 9
عورت کب بازار جا سکتی ہے؟
یہ بات مسلّم ہے کہ قرون اولیٰ میں جو کہ امت اسلامیہ کے بہترین افراد کا عہد زندگانی اور مثالی معاشرہ تھا، عورتوں کی بازار آمد و رفت بہت ہی کم تھی۔ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ کی مالدار خاتون تھیں، وہ بازار میں خود خرید و فروخت کرنے کی بجائے اپنا مال ایماندار تاجروں کو پیش کرتیں اور اپنے غلام کو امورِ تجارت پر نظر رکھنے کے لیے ساتھ بھیج دیتیں، حتی کہ ان کا مال سرور کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا، اس کی تفصیل کتب سیرت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس وقت وہی عورت بازار نظر آتی تھی جو انتہائی مجبور ہوتی، اس کی ضروریات پوری کرنے والا کوئی مرد نہ ہوتا، وہ اپنے لیے یا اپنے بچوں کے لیے مجبوراً گھر سے نکلتی، بازار جاتی اور جلد سے جلد اپنا کام ختم کر کے واپس آ جاتی۔
اس لیے شاید ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عورت فقط ایک ہی حالت میں بازار جا کر خریداری وغیرہ کر سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے کوئی ایسا مرد میسر نہ ہو جو اس کو بازار سے اشیائے ضرورت لا کر دے یا مرد تو ہو مگر اس کے لیے بازار جانا ناممکن ہو مثلاً: یہ کہ وہ گھر میں موجود نہ ہو، مریض ہو یا پاگل ہو، مطلوبہ چیز خریدنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو یا پھر خرید و فروخت کے اصول و قواعد سے یکسر ناواقف ہو۔
ضروری نوٹ:
اس کتابچہ میں جو گزارشات ذکر کی جا رہی ہیں ان میں سے بعض کا تعلق مردوں سے بھی ہے اگرچہ ہماری کاوش مسلمان بہنوں کے لیے خاص ہے۔