کتاب: خواتین اور شاپنگ - صفحہ 7
میں اس موقع پر ایک دو واقعات کی طرف اشارہ مناسب سمجھتا ہوں۔
ایک دفعہ جمعرات کے دن عشاء کی نماز کے قریب سید علی ہجویوی کے دربار کی دائیں سمت واقع بازار میں جانے کا اتفاق ہوا کسی پروگرام کی وجہ سے رش کافی تھا، ہم نے ایک نوجوان لڑکی کو روتے اور تیز تیز چلتے ہوئے دیکھا اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی، اس لڑکی کے پیچھے پیچھے چند اوباش نوجوانوں کا ٹولہ تھا جو اس بیچاری کے ساتھ چھیڑ خانی کررہے تھے، اسے تنگ کررہے تھے اور وہ ان کے نرغے سے نکلنے کی کوشش میں تیز تیز چلتی جارہی تھی اور ساتھ ساتھ رو بھی رہی تھی مگر ان بدکرداروں کو کوئی روکنے والا نہ تھا جبکہ دو پولیس والے بھی خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔
اسی طرح ایک دفعہ عشاء کے بعد انار کلی لاہور میں کالج کے آوارہ لڑکے پنجاب یونیورسٹی کی دو طالبات کو تنگ کررہے تھے، ان پر سرعام آوازیں کس رہے تھے (کیونکہ وہ انتہائی بیہودہ لباس میں تھیں) اور وہ بےبسی کے عالم میں بھاگم بھاگ یونیورسٹی کی طرف جارہی تھیں مگر کوئی ان کی مدد کو تیار نہ تھا۔
درحقیقت خواتین کو اللہ تعالیٰ نے مردوں کے مقابلے میں کمزور اور نازک بنایا ہے چاہے وہ ترقی اور آزادی نسواں کے نام پر گھروں سے نکلنے کے پروگرام بناتی رہیں، بازاروں، ہوٹلوں اور تفریح گاہوں کی زینت بنتی رہیں اگر وہ اسلامی حدود وقیود کو اپنی زندگی کی زینت نہیں بنائیں گی تو وہ غیر محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔
میں نے اس کتابچہ میں عزت مآب بہنوں کی خدمت میں چند اسلامی اصول پیش کرنے کی کوشش کی ہے جن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وہ بازار کا رخ کرسکتی ہیں بشرطیکہ انھیں کوئی مجبوری ہو او ربازار جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔