کتاب: خواتین اور شاپنگ - صفحہ 6
ہماری بہنیں اسلامی حدود وقیود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سارا سارا دن بازراوں میں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ دکانداروں سے بےباکانہ گفتگو میں وہ کوئی عار محسوس کرتی ہیں اور نہ ہی پردہ کاکوئی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ کاش میری بہنیں اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھ کر بازار کارخ کرتیں! کیونکہ آوارہ منش اور اوباش نوجوانوں کا پہلا ہدف بازار ہی ہیں۔ وہ بھی عورتوں کی طرح اس مرض کا شکار ہیں کہ بن سنور کر بازار آتے ہیں اور سارا دن منہ اٹھائے لوگوں کی عزتوں پر ڈورے ڈالتے رہتے ہیں۔ یہ بیچارے کبھی کبھی جوتوں اور سینڈلوں کا مزا چکھتے ہیں اور کبھی گالیوں سے ان کی ضیافت ہوتی ہے مگر یہ بڑے مزے سے کہتے ہیں!
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوا
بعض اوقات یہ شیطانی نمائندے عزت مآب بہنوں کو اپنے پرفریب جال میں پھانس کر اسی قیمتی متاع سے محروم کردیتے ہیں جو ہر عورت کوزندگی میں فقط ایک ہی بار نصیب ہوتی ہے۔ پھر ان کی مجبوری کو اس قدر کیش کرتے ہیں کہ الحفیظ والامان۔ بعض بدبخت بازاروں کے اندر رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین سے بدتمیزی اور چھیڑ خانی کرتے ہیں اورکئی دفعہ اس اذیت ناک صورت حال کے سامنے بعض خواتین کو بے بس ہوتے اور چیختے چلاتے بھی دیکھاگیا ہے مگر اس وقت ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
چاہے میری معزز بہنیں مجھ سے اختلاف کریں مگر میں نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ سوفیصد حقیقت پر مبنی ہیں اور اللہ تعالیٰ میری اس بات پر گواہ ہے۔