کتاب: خواتین اور شاپنگ - صفحہ 22
آج کل بازاروں میں ایسی اشیاء خصوصا میک اپ کا سامان دستیاب ہے جس کا استعمال جہاں ناجائز ہے وہاں طبی لحاظ سے نقصان دہ بھی ہے۔ ہماری خواتین کا میک اپ، بالوں پہ سنہرا رنگ، فیئر اینڈ لولی رنگت دیکھ کر ایک لطیفہ ذکر کرنے کو دل چاہتا ہے، کہتے ہیں کہ کسی جنگل کا ایک گیڈر دھوبیوں کے نیل کے مٹکے میں گر گیا جس سے اس کی رنگت نیلی ہو گئی۔ وہ جب واپس جنگل میں آیا تو جانوروں پر رعب جمانے لگا کہ میں اس جنگل میں ایک طاقتور جانور ہوں اور میرا نام ’نیل کینٹھ‘ ہے تمام جانوروں کو مجھ سے ڈرنا چاہیے، جانور بھی تشویش کا شکار ہو گئے ایک دن ایسے ہوا کہ ایک برساتی نالے کو عبور کرتے ہوئے ’نیل کینٹھ‘ صاحب پانی میں گر گئے اور اور اصلیت سامنے آ گئی، ہماری خواتین بھی جو میک اپ کی تہہ چڑھا کر کسی اور دنیا کی باسی ہونے کے خواب دیکھ رہی ہوتی ہیں، منہ دھونے پر اپنی اصلیت پہ واپس آ جاتی ہیں، اسی طرح ایسے ریڈی میڈ سوٹ اور ملبوسات بازار کی زینت ہیں جن کا پہننا ایک مسلمان عورت کے لیے کسی بھی طرح جائز نہیں مگر جب ہم اپنی مسلمان بہنوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ مغربی کافرات اور فاسقات کی نقالی میں اس قدر تنگ اور باریک لباس پہن رہی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ خواتین مغرب پرستی میں کس حد کو پار کرنا جاہتی ہیں؟ وہ کس قدر مختصر لباس پہننا چاہتی ہیں؟ پینٹ نما شلوار اور شرپ نما قمیصیں، کٹے بازو اور اونچے چاک، کیا یہ اسلامی اور مشرقی لباس ہے؟ اے مسلمان بہنو! ہوش کے ناخن لو، اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو ذرا غور سے پڑھو: ’’اہل جہنم کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے دیکھا نہیں۔ ایک تو وہ جن کے ہاتھ میں گھوڑے کی دم کی طرح لاٹھیاں ہوں جن سے وہ لوگوں کو ماریں گے (اور دوسرا) وہ عورتیں جو (کپڑے پہننے کے باوجود) ننگی ہوں