کتاب: خواتین اور شاپنگ - صفحہ 14
دیکھیں جو کل چند بے پردہ بیبیاں
اکبر حمیت قومی سے گڑ گیا
پوچھا کہ تمہارا وہ پردہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں وہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اور ایک انگریز نے امریکی پارلیمنٹ میں مسلمان معاشرے میں اپنا کلچر عام کرنے کی ترکیب کچھ اس طرح بتائی کہ اس نے کپڑے کا ایک ٹکڑا ایک ہاتھ میں پکڑا اور دوسرے میں قرآن مجید اور اس کپڑے کو قرآن مجید پڑ چڑھا دیا۔ ارکان پارلیمنٹ بولے یہ کیسی ترکیب ہے؟ اس نے کہا یہ مسلمان عورت کا حجاب ہے جسے اس کے چہرے سے کھینچ کر مسلمانوں کی کتاب قرآن مجید پڑ چڑھا دو تم کامیاب ہو جاؤ گے۔
آج ہم دیکھتے ہیں قرآن مجید کو مسلمانوں نے غلافوں میں بند جبکہ اپنی بہو بیٹیوں کے چہرے کھلے رکھے ہوئے ہیں۔ یہی ان کی ترقی ہے اور یہی یورپ چاہتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری اکثر بہنیں تو پردہ کو ویسے ہی بوجھ اور پابندی تصور کرتی ہیں ۔ ان کے نزدیک پردہ کرنے والی خواتین دقیانوس ،قدامت پسند اور نہ جانے کن کن القاب کی مستحق ٹھہرتی ہیں؟
اور جو خواتین پردہ کرکے شاپنگ کرنے جاتی ہیں ان میں سے اکثر کی حالت انتہائی مضحکہ خیز ہوتی ہے ۔ وہ اپنے گھر، خاندان اور اہل محلہ کو دیکھ کر تو پردہ کرلیتی ہیں مگر جب بازار میں داخل ہوتی ہیں یا دکاندار کے سامنے ہوتی ہیں تو جلوہ نمائی شروع ہو جاتی ہے۔ یا پھر ایسا پردہ کیا جاتا ہے جو بذات خود بے پردگی اور دل کشی کا باعث ہے مروجہ فیشن ایبل نقاب اور جدید برقعہ اسی کا مظہر ہے ۔ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ جو کہ سعودی عرب کے ممتاز عالم دین تھے، نے اس فیشن ایبل نقاب کو حرام قرار دیا ہے جس میں عورت مزید پرکشش نظر آتی ہے اور اس کے جسم کی بناوٹ نمایاں ہوجاتی ہے