کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 81
سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ ﴾ (البقرۃ:۱۵۵۔۱۵۷) ’’ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے، جنھیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ‘‘ ہاں ! موت کے وقت اس طرح رونا کہ اس میں گریہ زاری، نوحہ اور دیگر ایسے حرام اور ناجائز کام نہ پائے جائیں جن میں قضاء و قدر سے ناراضگی اور عدم رضا ظاہر ہو، جائز ہے کیونکہ رونے سے میت پر شفقت اور رقت کا پتہ چلتا ہے اور اس نوعیت کے رونے پر قابو پانا بھی ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے اس کو مباح بلکہ بعض حالات میں مستحب قرار دیا گیا ہے۔ (وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ)