کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 78
’’ ہمیں جنازہ کے ساتھ چلنے سے روکا گیا ہے، لیکن ہمارے اوپر بہت زور نہیں دیا گیا ہے۔ ‘‘ بظاہر اس نہی (ممانعت) سے تحریم کا پتہ چلتا ہے۔ سیّدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے قول (( لم یعزم علینا )) کی تفسیر و تشریح میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۲۴/ ۳۵۵) میں فرماتے ہیں : ’’ ہوسکتا ہے اس سے آپ کا مقصد یہ ہو کہ نہی (ممانعت) میں زور نہیں دیا گیا ہے، مگر اس سے تحریم کی نفی نہیں ہوتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے تئیں گمان کیا ہو کہ یہ نہی تحریم کے لیے نہیں ہے۔ حجت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک میں ہے نہ کہ کسی دوسرے کے ظن و تخمین میں ۔ ‘‘ خواتین کے لیے قبروں کی زیارت حرام ہے: سیّدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں : (( إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُوْرِ۔)) [1] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی (بکثرت) زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ ‘‘ (احمد، ابن ماجہ، ترمذی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؛ یہ بالکل واضح بات ہے کہ اگر خواتین کے لیے اس کے دروازے کو کھول دیا گیا تو ان کے اندر پائی جانے والی کمزوری، کثرت جزع و فزع اور قلت صبر کی وجہ سے ان کا معاملہ چیخ و پکار، آہ و زاری اور نوحہ و گریہ زاری پر جا کر ختم ہوگا مزید برآں یہ عمل ان کی گریہ زاری کی وجہ سے مردے کی اذیت و تکلیف کا بھی باعث بنے گا کیونکہ اس میں عورتوں کی آواز اور ان کی شکل و
[1] المسند للامام احمد، رقم الحدیث: ۵/ ۱۵۶۵۷۔ ترمذی، ابواب الجنائز، باب ماجاء فی کراھیۃ زیارۃ القبور للنساء، رقم: ۱۰۵۶۔ ابن ماجہ، ابواب الجنائز، باب فی النھی عن زیارۃ النساء القبور، رقم: ۱۵۷۴۔ ابو داؤد، کتاب الجنائز، باب فی زیارۃ النساء القبور، رقم: ۳۲۳۶۔