کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 74
’’ اگر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان امور کا مشاہدہ کرتے جن کو (آج کی) عورتوں نے ایجاد کر رکھا ہے تو ان کو (مساجد سے) روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں ۔ ‘‘ اور زمانہ اوّل کے برخلاف موجودہ زمانہ میں شر و فساد اور فتنوں کے اسباب بیشمار ہیں ۔ واللہ اعلم۔ میں (مؤلف) کہتا ہوں ہمارے زمانہ میں صورتِ حال کہیں زیادہ ابتر ہے۔ امام ابن الجوزی احکام النساء (صفحہ: ۳۸) میں فرماتے ہیں : ’’ میں کہتا ہوں یہ ہم بیان کر آئے ہیں کہ خواتین کا نکلنا جائز اور مباح ہے، لیکن خود ان کے یا ان کے ذریعہ دوسروں کے شر و فساد اور فتنوں میں واقع ہونے کا خوف ہو تو نہ نکلنا ہی افضل ہے، کیونکہ صدر اوّ ل کی خواتین اس کے بالکل برعکس ہوتی تھیں ، جس طرح آج کی خواتین کی پرورش اور تربیت ہوتی ہے، یہی حال مردوں کا بھی تھا۔ ‘‘ یعنی ان کے اندر حد درجہ زہد و ورع پایا جاتا تھا۔ اسلامی بہنوں کو سابقہ سطور میں نقل کی گئی باتوں سے معلوم ہوگیا ہوگا کہ شرعی اعتبار سے نمازِ عید کے لیے ان کا عیدگاہ جانا جائز ہے، بشرطیکہ پردے کا التزام ہو اور مکمل حشمت و عصمت کے ساتھ نکلا جائے اور اللہ ربّ العزت کا تقرب، مسلمانوں کے ساتھ ان کی دعاؤں میں شرکت اور اسلامی شعار کا اظہار مقصود ہو نہ کہ اس سے زیب و زینت کی نمائش اور شر و فساد اور فتنوں کے درپے ہونا مقصود ہو۔ اس سلسلے میں کافی متنبہ اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔