کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 64
زیادہ پردے میں رکھے گی۔ میں عورت کے لیے اس چیز کو رکوع میں اور پوری نماز میں پسند کرتا ہوں ۔ ‘‘ (۴)کسی عورت کی امامت میں جماعت کے ساتھ عورتوں کے نماز ادا کرنے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اہل علم منع کرتے ہیں اور بعض دوسرے جواز کے قائل ہیں بیشتر علماء کا مسلک یہی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اہل خاندان کی امامت کا حکم دیا تھا۔ [1] (اس کو امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔) بعض اہل علم نے اس کو غیر مستحب عمل کہا ہے، جب کہ بعض دوسرے اہل علم اس کی کراہت کے قائل ہیں اور بعض دیگر اہل علم فرض نماز کے بجائے نفل نماز میں اس کو جائز سمجھتے ہیں اور شاید راجح قول یہی ہے کہ یہ مستحب ہے، مزید تفصیل کے لیے المغنی لابن قدامہ (۲/ ۲۰۲)، المجموع للنووی (۴/ ۸۴، ۸۵) کا مراجعہ مفید ہوگا۔ عورت بالجہر قراء ت کرے گی، بشرطیکہ غیر محرم اس کی قرأت کو نہ سن رہے ہوں ۔ (۵)مساجد میں مردوں کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کے لیے خواتین کا گھروں سے نکلنا مباح ہے، لیکن گھروں کے اندر نماز ادا کرنا ان کے حق میں بہتر ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے: (( لاَ تَمْنَعُوْا إِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ )) [2] ’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو۔ ‘‘
[1] ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب امامۃ النساء، رقم: ۵۶۱۔ [2] صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب خروج النساء الی المساجد، رقم: ۹۹۵۔ ابو داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب ما جاء فی خروج النساء الی المسجد، رقم: ۵۶۵۔ المسند للامام احمد، رقم الحدیث: ۹/۲۴۴۶۰… ۸/۲۱۷۳۲ … ۳/۹۶۵۱۔