کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 63
زینت اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا حق ہے چنانچہ کسی کے لیے خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرنا جائز نہیں خواہ تنہا رات کے وقت طواف کر رہا ہو اور نہ ننگے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے خواہ تنہا ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘ مزید تحریر کرتے ہیں : ’’ نماز میں چھپائے جانے والے جسمانی اعضاء کا ربط و تعلق ان اعضاء سے نہیں ہے، جن کو نگاہوں سے چھپایا جاتا ہے، نہ تو قاعدہ مطردہ کے طور پر نہ ہی مفہوم مخالف کے طور پر۔ ‘‘ المغنی (۲/ ۳۲۸) میں مذکور ہے: ’’ نماز میں آزاد عورت کے پورے جسم کی ستر پوشی ضروری ہے، اگر کوئی حصہ کھلا رہ گیا تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی، ہاں اگر بہت مختصر حصہ کھلا رہ گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہی مسلک امام مالک، امام اوزاعی اور امام شافعی رحمہم اللہ کا ہے۔ ‘‘ (۳المغنی (۲/ ۲۵۸) میں مذکور ہے: ’’ عورت رکوع اور سجود میں اپنے آپ کو خوب پھیلا کر کھلا رکھنے کے بجائے سمیٹ کر رکھے گی، چار زانو ہو کر بیٹھے گی تو رک کرنے اور ایک پیر کو بچھا کر بیٹھنے کے بجائے دونوں پیروں کو لٹا کر داہنی جانب انہیں نکال دے گی، کیونکہ یہی اس کے حق میں زیادہ ساتر ہے۔ ‘‘ امام نووی رحمہ اللہ المجموع (۳/ ۴۵۵) میں لکھتے ہیں ؛ امام شافعی رحمہ اللہ نے مختصر میں فرمایا ہے: ’’ اعمال نماز میں مرد و زن کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، سوائے اس کے کہ عورت کے لیے مستحب یہ ہے کہ سجدہ میں وہ اپنے آپ کو سمیٹ کر یا اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے چپکا کر حتی الامکان اپنے آپ کو زیادہ سے