کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 56
﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوْھُنَّ متَاعًا فَسْأَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ ﴾ (الاحزاب:۵۳) ’’ جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو۔ ‘‘ مذکورہ آیت میں حجاب سے مراد ایسی دیوار ،دروازہ یا لباس ہے جو عورت کو پردے میں رکھے۔ آیت اگرچہ ازواجِ مطہرات کے حق میں نازل ہوئی ہے، لیکن اس کا حکم تمام مومنات کو عام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی علت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ﴿ذٰلِکُمْ أَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِھِنَّ ﴾ (الاحزاب:۵۳) ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے۔ ‘‘ یہ ایک علت ہے، لہٰذا علت کا عموم حکم کے عموم کی دلیل ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿یٰٓـاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ﴾ (الاحزاب:۵۹) ’’ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں ۔ ‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۲۲/ ۱۱۰، ۱۱۱) میں رقم طراز ہیں : ’’ مذکورہ آیت کریمہ میں وارد لفظ جلباب کے معنی ہیں دوہری چادر جس کو سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور دیگر علم رداء (چادر) اور عوام ازار کہتے ہیں ۔ حقیقتاً جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سر سمیت عورت کے پورے بدن کو دھانپ لے۔ سیّدنا ابو عبیدہ وغیرہ کا بیان ہے کہ اسے اپنے سر کے اوپر سے اس طرح ڈال لے گی کہ سوائے آنکھ کے جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو،