کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 54
مردوں کے لیے درست ہوسکتا ہے اور کس قسم کا لباس عورتوں کے حق میں مناسب ہوسکتا ہے، لہٰذا مرد جس چیز کے مامور ہیں اس کے مناسب لباس مردوں کا ہوگا اور خواتین جس چیز کی مامور ہیں اس کے مطابق لباس عورتوں کا ہوگا، خواتین پردہ نشینی اور پوشیدگی میں رہنے کی مامور ہیں نہ کہ بے پردگی اور کھلے طور پر رہنے کی ، یہی وجہ ہے کہ اذان، تلبیہ میں آواز بلند کرنا، صفا و مروہ چڑھنا اور حالت احرام میں مردوں کی طرح کپڑوں سے مجرد ہونا عورتوں کے لیے مشروع نہیں ہے۔ حالت احرام میں مردوں کو سر کھلا رکھنے اور معتاد لباس نہ پہننے کا حکم دیا گیا ہے، معتاد لباس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کپڑے جو انسانی جسم واعضاء کی ساخت کے مطابق سلے گئے ہوں ، لہٰذا مرد نہ تو قمیص پہن سکتے ہیں اور نہ پائجامہ اور نہ ہی برنس (ایسا لباس جس میں سر کو ڈھانکنے کے لیے ٹوپی بھی لگی ہوئی ہو) اور نہ ہی موزے۔ ‘‘ مزید لکھتے ہیں : ’’ لیکن عورت کو کسی لباس سے منع نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ اسے پردہ اور حجاب کا پابند بنایا گیا ہے، لہٰذا اس کے لیے کوئی ایسی چیز مشروع نہیں کی گئی ہے، جو حجاب اور پردہ کے مخالف ہو، ہاں نقاب لگانے اور دستانہ پہننے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ ایسا لباس ہے جو عضو کی ساخت کے مطابق بنایا گیا ہے اور عورت کو اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ‘‘ اس کے بعد یہ ذکر کرتے ہوئے کہ محرم عورت اپنے چہرہ کو مردوں سے نقاب کے علاوہ کسی دوسری چیز سے چھپائے رکھے گی، آخر میں لکھتے ہیں : ’’ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ مردوں اور عورتوں کے لباس میں فرق ضروری ہے، جس کے ذریعہ مرد و زن میں تمیز کی جاسکے اور یہ کہ عورتوں