کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 50
مذکورہ شرائط کے ساتھ اسقاطِ حمل کے اقدام کی جو اجازت دی گئی ہے وہ محض دو ضرر میں سے بڑے ضرر کو دور کرنے اور دو مصلحتوں میں سے بڑی مصلحت کو حاصل کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ اجلاس مذکورہ قرارداد کو پاس کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور اس معاملہ میں کافی احتیاط اور تثبت اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ (( وَصَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ۔)) کتاب الدماء الطبیعیۃ للنساء (عورتوں کے طبعی خون) مولفہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ میں مذکور ہے: ’’ اسقاطِ حمل سے اگر حمل کو ضائع کرنا مقصود ہے تو یہ عمل روح پھونک دیے جانے کے بعد بلاشک و شبہ حرام ہے، کیونکہ یہ ایک حرام کردہ نفس کا ناحق قتل ہے، جو کتاب و سنت اور اجماع سے حرام ہے۔ ‘‘ (صفحہ نمبر: ۶۰) امام ابن الجوزی اپنی کتاب احکام النساء (ص: ۱۰۸۔ ۱۰۹) میں لکھتے ہیں : ’’ جب نکاح کا مقصد طلب اولاد ہے اور ہر نطفہ سے اولاد کا ہونا ضروری نہیں ہے، لہٰذا حمل قرار پانے کے بعد مقصد حاصل ہوجاتا ہے اس لیے قصداً حمل کا اسقاط مطلوبہ حکمت کی مخالفت ہے۔ ہاں اگر حمل ابتدائی مرحلے میں ہو تو روح ڈالے جانے سے پہلے اس کا اسقاط گناہ کبیرہ ہے، کیونکہ وہ بھی آہستہ آہستہ بتدریج کمال و تمام کی جانب بڑھ رہا تھا، البتہ اس صورت میں بنسبت جان پڑجانے کے بعد اسقاطِ حمل سے کم گناہ ہے کیونکہ جان پڑجانے کے بعد بالقصد اسقاطِ حمل ایک مومن کی جان لینے کی مانند ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَإِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ ﴾ (التکویر:۸۔۹)