کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 49
ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ اپنے مجموع فتاویٰ (۱۱/ ۱۵۱) میں لکھتے ہیں : ’’ جب تک حمل کی موت متحقق نہ ہوجائے اس کو ساقط کرانا جائز نہیں ہے، ہاں اگر موت متحقق ہوگئی ہو تو جائز ہے۔ ‘‘ سعودی عرب کے کبار علماء بورڈ نے اپنے اجلاس نمبر ۱۴۰، بتاریخ ۲۰/ ۶/ ۱۴۰۷ھ میں مندرجہ ذیل قرارداد پاس کی ہے: ۱:کسی بھی مرحلہ میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے، سوائے شرعی وجہ جواز پائے جانے کی صورت میں ،وہ بھی نہایت محدود دائرہ میں حمل کا اسقاط جائز ہے۔ ۲: اگر حمل ابتدائی مرحلے میں ہو یعنی چالیس دن کے اندر ہو اور اس کی مدت میں اسقاط کا سبب اولاد کی تعلیم و تربیت کی پریشانی اور مشقت کا خوف ہو یا ان کے معاش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات سے عجز و تہی دامنی کا خوف یا ان کے مستقبل کے خراب ہونے کا خدشہ ہو یا زوجین اپنے موجودہ بال بچوں پر اکتفا کرنا چاہتے ہوں تو ان تمام صورتوں میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے۔ ۳:اگر حمل خون کا یا گوشت کا لوتھڑا ہو اس صورت میں بھی اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے، البتہ کوئی قابل اعتماد طبی کمیٹی یہ فیصلہ کردے کہ حمل کا برقرار رہنا ماں کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ بایں طور کہ حمل کے باقی رہنے میں اس کی موت کا اندیشہ ہو تو خطرے کے ازالے کے لیے تمام وسائل و ذرائع کو بروئے کار لانے اور اس میں ناکامی کے بعد اسقاطِ حمل جائز ہے۔ ۴:تیسرے مرحلے کے بعد یعنی چار مہینے مکمل ہوجانے کے بعد حمل کا اسقاط بالکل حرام ہے، البتہ قابل اعتماد اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی ٹیم یہ فیصلہ دیدے کہ جنین کا ماں کے پیٹ میں برقرار رہنا اس کی موت کا سبب بن سکتا ہے تو اس کی زندگی کو بچانے کے لیے تمام وسائل و ذرائع اختیار کرنے کے بعد ناکامی کی صورت میں اسقاطِ حمل جائز ہے۔