کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 48
گی، طواف بھی کرے گی، اس کے تمام اعمال عبادات اسی طرح صحیح اور درست ہوں گے جس طرح ایک پاک و طاہر عورت کے صحیح اور درست ہوتے ہیں ۔ اسقاطِ حمل کا حکم: اللہ تعالیٰ کے حکم سے رحم میں جو حمل قرار پاتا ہے شرعی نقطہ نظر سے ایک مسلمان عورت اس کی امین اور محافظ ہوتی ہے، لہٰذا اسے چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ﴿وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (البقرۃ:۲۲۸) ’’ انھیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہے اسے وہ چھپائیں اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان ہے۔ ‘‘ کسی بھی طریقے اور وسیلے سے اسے ساقط کرنے یا اس سے نجات حاصل کرنے کی خاطر بہانہ بازی سے کام نہ لے، اگر حالت حمل میں روزہ اس کے لیے باعث مشقت یا مضر ثابت ہورہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مہینے میں اسے افطار کی رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی ہے، موجودہ زمانہ میں اسقاطِ حمل کا رواج چل پڑا ہے، دراصل یہ ایک حرام کام ہے، اگر حمل میں روح پڑگئی ہے اور اسقاط کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی تو یہ ایک ایسے نفس کے قتل کے مترادف ہے جس کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ اس پر فوج داری قانون کے مطابق احکامات لاگو ہوں گے۔ دیت (خون بہا) کی تفصیلات کی روشنی میں اس پر دیت واجب ہوگی۔ بعض ائمہ کے قول کے مطابق کفارہ بھی واجب ہوگا، یعنی ایک مومن گردن (غلام) آزاد کرے، اگر مومن گردن نہ پائے تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے۔ بعض اہل علم نے اس عمل کو موؤدۃ صغریٰ (چھوٹے پیمانہ پر زندہ درگور کرنا) مانا