کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 47
نفاس میں بیٹھتی تھیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت نفاس کی (چھوڑی ہوئی) نمازوں کی قضاء کا انہیں حکم نہیں دیتے تھے۔ ‘‘[1] فائدہ :… نفاس کا خون اگر چالیس دن سے پہلے بند ہوجاتا ہے اور عورت (طہارت کا) غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیتی ہے، اس کے بعد چالیس دن سے پہلے دوبارہ خون آجاتا ہے تو صحیح مسلک یہ ہے کہ اسے نفاس ہی کا خون سمجھا جائے گا، درمیان میں حاصل ہونے والے طہر (پاکی کے ایام) میں اس نے جو روزے رکھے تھے وہ صحیح ہوں گے ان کی قضاء کی ضرورت نہیں ہوگی۔ [2] ملاحظہ ہو: [مجموع فتاویٰ الشیخ محمد بن ابراہیم (۲/۱۰۲)، فتاویٰ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ مطبوع در مجلہ الدعوۃ (۱/ ۴۴)، حاشیہ ابن قاسم علی شرح الزاد (۱/ ۴۰۵)، الدماء الطبیعیۃ للنساء (عورتوں کے طبعی خون) مؤلفہ محمد بن صالح العثیمین (صفحہ نمبر: ۵۵/ ۵۶)، الفتاویٰ السعدیۃ (ص: ۱۳۷)] فائدہ:… شیخ عبدالرحمن ابن سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سابقہ تمام تفصیلات سے واضح ہوا کہ نفاس کے خون کی علت ولادت ہے، استحاضہ کا خون بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایک عارضی اور وقتی خون ہے اور حیض کا خون یہی اصل خون ہے۔ واللہ اعلم۔ ‘‘ (ملاحظہ ہو کتاب ارشاداولی الابصار والالاب، ص: ۲۴) مانع حیض دواؤں کا استعمال: مانع حیض دواؤں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ صحت کے لیے مضر نہ ہو۔ دواء استعمال کرنے کے بعد اگر حیض نہیں آتا تو عورت نماز پڑھے گی، روزہ رکھے
[1] ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب ما جاء فی وقت النفساء، رقم: ۳۱۲۔ [2] آپ کی عبارت یوں ہے: (( وتقضی الصوم دون الصلاۃ۔)) … ’’ یعنی روزے کی قضاء کرے گی نہ کہ نماز کی۔ ‘‘ یہ مجمل کلام ہے۔ قضاء کیے جانے والے روزہ کی وضاحت اس میں نہیں ہے، آیا وہ روزہ مراد ہے جو اس نے درمیانی طہر میں رکھے تھے یا وہ روزہ ہے جو اس نے دوبارہ خون آجانے کے بعد ترک کیا تھا اور شاید یہی روزہ مقصود ہے۔