کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 39
کے اول وقت کو اس نے پالیا تھا اور اس نماز کو ادا کرنے سے پہلے ہی وہ حیض یا نفاس میں مبتلا ہوگئی تھی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۲۳/ ۳۳۵) میں اس مسئلہ کے متعلق لکھتے ہیں : ’’ دلائل کے اعتبار سے سب سے راجح امام ابو حنیفہ اور امام مالک (رحمہما اللہ) کا مذہب ہے یعنی عورت پر کچھ بھی لازم نہیں ہے کیونکہ قضاء کا وجوب ایک نئے حکم سے ثابت ہوگا اور یہاں پر کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو عورت پر قضا کو لازم قرار دیتا ہے اور اس عورت نے جائز حد تک تاخیر کی ہے، لہٰذا (اس تاخیر کی بناء پر) اس عورت کو سستی اور تساہلی سے نہیں متصف کیا جائے گا، سونے اور بھول جانے والا بھی اگرچہ سست اور متساہل نہیں قرار دیا جائے گا، لیکن یاد آجانے یا بیدار ہوجانے کے بعد جس نماز کو وہ ادا کرے گا اس کی وہ نماز قضا نہیں شمار کی جائے گی، بلکہ اس کے حق میں نماز کا وقت یہی ہے۔ ‘‘ استحاضہ اور اس کے مسائل: استحاضہ: مقررہ وقت کے علاوہ دیگر ایام میں عاذل نامی رگ سے خون کا بکثرت خارج ہونا استحاضہ کہلاتا ہے۔ استحاضہ میں مبتلا عورت کا معاملہ قدرے پیچیدہ ہے، کیونکہ حیض اور استحاضہ کے خون میں بڑی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔ اگر عورت سے بالاستمرار یا بیشتر اوقات میں خون خارج ہوتا ہے تو کس خون کو وہ حیض شمار کرے گی اور کس کو استحاضہ مان کر نماز روزہ ترک نہیں کرے گی، اس لیے کہ استحاضہ والی عورت کو طاہرہ (پاک) عورت کا حکم حاصل ہے، اس کی معرفت حاصل کرنے کے لیے یہ جاننا ہوگاکہ مستحاضہ (جس کو استحاضہ آتا ہے) کی تین حالتیں ہوتی ہیں : پہلی حالت: استحاضہ میں مبتلا ہونے سے پہلے عورت اپنی ماہواری کے ایام سے