کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 21
جس کی رُو سے پورے روئے زمین کی تمام خواتین میں سے کوئی بھی خاتون ان کی شریک اور ہم سر نہیں ہوسکتی تھی اور وہ خاص حکم یہ تھا کہ شادی کے تعلق سے ان کی ساری توقعات کا خاتمہ ہوچکا تھا اور شادی سے وہ اس طرح ناامید ہوچکی تھیں کہ اس میں کسی حرص و طمع کی ادنیٰ آمیزش بھی نہیں پائی جاتی تھی، چنانچہ وہ ایسی عدت گزار عورتیں تھیں جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں ہونے کی وجہ سے تا حیات محبوس تھیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا ﴾ (الاحزاب:۵۳)
’’ اور نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپ کے بعد کسی وقت بھی آپ کی بیویوں سے نکاح کرو (یاد رکھو) اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا (گناہ) ہے۔ ‘‘
مردوں سے مکمل بے رغبتی اور مایوسی زیب و زینت کی بعض ایسی چیزوں میں کوتاہی اور سستی کے لیے رخصت کا سبب بن سکتی ہے جو کسی دوسرے سبب کی بناء پر جائز نہیں ہوسکتی ہیں ۔‘‘ [1]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۲۲/ ۱۴۵) میں فرماتے ہیں :
’’ جس طرح بعض آبرو باختہ عورتیں اپنے بالوں کی ایک ہی چوٹی بنا کر اور اسے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکا کر رکھتی ہیں ۔ ‘‘
سعودی عرب کے سابق مفتی محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عصر حاضر کی بعض مسلم خواتین کا یہ عمل کہ سر کے بالوں کو ایک جانب سے کنگھی کرکے پچھلے حصہ گدی میں یا
[1] اضواء البیان (۵/ ۵۹۸۔ ۲۰۱)