کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 20
ہوجائیں کہ عورت کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوں تو بقدر ضرورت ان کو چھوٹا کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ بعض ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہن) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا کرتی تھیں اس لیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زیب و زینت کو ترک کردیا تھا اور بالوں کو بڑھانے اور انہیں سنوارنے کی ان کو حاجت و ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور اگر بالوں کو چھوٹا کرانے سے کافرہ اور فاسقہ عورتوں یا مردوں کی مشابہت اختیار کرنا مقصود ہے تو یہ بلا شک و شبہ حرام ہے، اس لیے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اور اگر بالوں کو چھوٹا کرانے سے زیب و زینت مقصود ہے تو بظاہر یہ بھی ناجائز معلوم ہوتا ہے، استاذ محترم شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (اضواء البیان) میں لکھتے ہیں :
’’ بہت سے مسلم ممالک میں خواتین کا اپنے بالوں کو جڑوں کی حد تک چھوٹا کرانے کا جو رواج بڑھتا جارہا ہے درحقیقت یہ فرنگی طور طریقہ ہے جو اس طور طریقہ کے بالکل مخالف ہے جس پر مسلم خواتین بلکہ قبل از اسلام عرب خواتین گامزن تھیں ۔ یہ طریقہ ان تمام انحرافات میں سے ایک ہے جو دین و اخلاق اور شکل و صورت وغیرہ میں عام ہوتے جارہے ہیں ۔ ‘‘
اس کے بعد موصوف نے اس حدیث کا تذکرہ کیا ہے جس میں یہ وارد ہوا ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اپنے بالوں کو وفرہ (کانوں تک لٹکتے ہوئے بال) کی حد تک چھوٹا کرالیتی تھیں اور اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ازواج مطہرات نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے بالوں کو چھوٹا کرایا تھا، اس لیے کہ آپ کی زندگی میں زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کرتی تھیں اور ان کی بہترین زیب و زینت میں ان کے بال بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کو ایک خاص حکم حاصل ہوگیا تھا