کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 17
انہیں فروغ دینے کا وسیلہ اور ذریعہ بنا رکھا ہے، ان تمام غلط حرکتوں کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ خواتین اپنے گھروں کے اندر اپنی حقیقی اور اصل ذمہ داریوں سے دست بردار ہوگئیں ۔ اس کی وجہ سے ان کے خاوند اپنے بچوں کی تربیت اور گھریلو ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے بیرونِ ملک سے خادماؤں کو درآمد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، جس کا اثریہ مرتب ہوتا ہے کہ بے شمار فتنے اور بڑی بڑی برائیاں جنم لیتی ہیں ۔ خواتین کے لیے تعلیم و تعلم اور ملازمت کی اجازت: گھر سے باہر خواتین کی سروس یا دیگر کام کرنے کے ہم مخالف نہیں ہیں بشرطیکہ وہ مندرجہ ذیل ضوابط کے تحت ہوں : ۱:عورت اس ملازمت کی یا معاشرہ اس کے کام کا واقعی ضرورت مند ہو، مردوں میں اس کام کو انجام دینے والا کوئی موجود نہ ہو۔ ۲:گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے بعد ہی وہ گھر کے باہر سروس کرسکتی ہے کیونکہ گھریلو ذمہ داریوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ۳:مردوں سے دور رہ کر محض خواتین کے بیچ میں اس طرح کی سروس کی جاسکتی ہے، مثال کے طور پر عورتوں کی تعلیم و تربیت، ان کی تیمار داری اور ان کا علاج ومعالجہ۔ ۴:اسی طرح دینی امور کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ضروری چیز ہے جن دینی مسائل کی عورت کو ضرورت ہو انہیں سکھنے اور حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ انہیں عورتوں کے درمیان رہ کر حاصل کیا جائے، مساجد وغیرہ میں قائم کیے جانے والے وعظ و نصیحت کے دروس کی حاضر ی میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ پردے کے ساتھ اور مردوں کے اختلاط سے دور ہو جیسا کہ ابتدائے اسلام میں خواتین مساجد میں حاضر ہو کر سیکھتی اور سکھاتی تھیں ۔