کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 158
کے دوران بھی اس پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔ بیعت کے وقت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عورتوں سے مصافحہ نہ کرنا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ مرد عورتوں سے مصافحہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ان کے جسم کا کوئی حصہ عورت کے جسم کے کسی حصہ سے مس کرسکتا ہے، کیونکہ لمس کی سب سے خفیف صورت مصافحہ ہے، جب بوقت ضرورت یعنی بیعت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصافحہ سے گریز کرتے تھے تو اس سے یہی معلوم ہوا کہ مصافحہ جائز نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کسی کے لیے جائز نہیں ، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے افعال و اقوال اور تقریر کے ذریعہ اپنی امت کے لیے احکامات کی تشریح کرنے والے تھے۔ دوسری دلیل :… پہلے ہم جو کہہ آئے ہیں کہ ایک خاتون مکمل طور سے عورت (یعنی ستر) ہوتی ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپائے، فتنہ میں واقع ہونے کے خوف سے اسے نگاہیں پست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دو جسموں کے لمس میں بہ نسبت آنکھوں کی نظر کے شہوت کو بھڑکانے اور فتنہ و فساد کی جانب دعوت دینے کا زیادہ قوی داعیہ پایا جاتا ہے۔ ہر انصاف پسند آدمی اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا بوجھتا ہے۔ تیسری دلیل :… اس زمانے میں جب کہ لوگوں کے دلوں میں خوفِ الٰہی باقی نہیں رہا، امانت و دیانت کا فقدان ہوتا جارہا ہے، شکوک و شبہات کی چیزوں سے اجتناب کا جذبہ ماند پڑتا جارہا ہے، ایک اجنبی عورت سے لطف اندوز ہونے اور لذت حاصل کرنے کا یہ ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے، بارہا ہم کو بتلایا جاچکا ہے کہ عوام سے بعض لوگ اپنی سالیوں (بیویوں کی بہنوں ) کا منہ سے منہ ملا کر بوسہ لیتے ہیں اور اس کو سلام کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی سالی کو سلام کیا ہے۔ ان کی مراد ہوتی ہے کہ اس کا بوسہ لیا ہے، جب کہ اس کی حرمت پر علماء کا اجماع ہے، لہٰذا حق بات جس میں شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش نہیں ہے، یہ ہے کہ فتنوں اور شکوک و شبہات کی چیزوں اور ان