کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 152
خاوند کے نامحرم رشتہ دار کے ساتھ تنہائی میں اکٹھے ہونا حرام ہے: بعض خواتین اور ان کے سرپرست مختلف نوع کی خلوتوں (تنہائیوں ) کے سلسلے میں تساہل سے کام لیتے ہیں ، انہی خلوتوں میں سے ایک یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کے رشتہ داروں کے ساتھ خلوت (تنہائی) میں ہوتی ہے، ان کے سامنے اپنے چہرے کو کھلا رکھتی ہے، حالانکہ یہ خلوت بہ نسبت دیگر خلوتوں کے زیادہ خطرناک اور سنگین ہوتی ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( إِیَّاکُمْ وَالدُّخُوْلَ عَلَی النِّسَائِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰہ عليه وسلم ! أَفَرَ أَیْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ۔)) [1] ’’ خواتین پر داخل ہونے سے گریز کرو، ایک انصاری صحابی نے عرض کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حمو کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حمو تو موت ہے۔ ‘‘ (امام احمد، بخاری اور ترمذی رحمہم اللہ نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔) امام ترمذی فرماتے ہیں ؛ ’’ حمو ‘‘ کے معنی دیور (خاوند کا بھائی) بتلایا جاتا ہے، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیور کے ساتھ خلوت کو ناپسند فرمایا ہے۔ [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری (۹/ ۳۳۱) میں لکھتے ہیں : ’’ امام نووی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ خاوند کے قریبی رشتہ داروں جیسے والد، چچا، بھائی، بیٹے، بھتیجے اور چچیرے بھائی وغیرہ کو حمو کہا جاتا ہے، اس پر علمائے
[1] المسند للامام احمد، رقم الحدیث: ۶/۱۷۳۵۲۔ صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل بامرأۃ الا ذو محرم، رقم: ۵۲۳۳۔ ترمذی، ابواب الرضاع، باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات، رقم: ۱۱۷۱۔ [2] ترمذی، ابواب الرضاع، باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات۔