کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 14
اللہ تعالیٰ نے خواتین کو ان کی اپنی ایک مستقل حیثیت کی ضمانت دی ہے، انہیں مال موروث شمار نہیں کیا، بلکہ وارث بنایا ہے۔ خویش و اقارب کے مال متروک میں ان کا حصہ متعین کیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
﴿لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا ﴾ (النساء:۷)
’’ ماں باپ اور خویش و اقارب کے ترکے میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی (جو مال ماں باپ اور خویش و اقارب چھوڑ کر مریں ) خواہ وہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں ) حصہ مقرر کیا ہوا ہے۔ ‘‘
دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ ﴾ (النساء:۱۱)
’’ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور دو سے زیادہ ہو تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔ ‘‘
اسی طرح کی متعدد وہ تمام آیاتِ کریمہ ہیں جو مال میراث میں ماں ، بیٹی، بیوی کی صورت میں خواتین کے حصوں کی تعیین کے سلسلے میں وارد ہوئی ہیں ۔
ازدواجی زندگی کے تعلق سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے چار بیویوں کی آخری حد متعین کردی ہے، بشرطیکہ ان کے مابین حتی المقدور عدل و انصاف قائم کیا جائے اور ان کے ساتھ حسن معاشرت کو واجب اور ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: