کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 132
ہے۔ ‘‘ اس کے بعد موصوف رحمہ اللہ نے سیّدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ بیان کیا ہے کہ جب وہ عمر دراز ہوگئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے جدائی کا ارادہ کرلیا تو آپ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر مصالحت کرلی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اپنی زوجیت میں باقی رکھیں اور وہ اپنی باری میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں دست بردار ہوجاتی ہیں ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی اس پیشکش کو قبول فرما کر انھیں اپنی زوجیت میں باقی رکھا۔ (تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۴۰۶) اگر عورت کو خاوند ناپسند ہو تو؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَـإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَ حُدَوْدَ اللّٰہِ فَـلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ﴾(البقرۃ:۲۲۹) ’’ اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لیے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناہ نہیں ہے۔ ‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر (۱/ ۴۸۳) میں فرماتے ہیں : ’’ اگر میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہوجائے اور عورت شوہر کے حقوق بجا لانے میں ناپسندیدگی کی وجہ سے کوتاہی کرتی ہو اور اس کے ساتھ گزر بسر کی اپنے اندر طاقت و استطاعت نہ پاتی ہو تو عورت کے لیے جائز ہے کہ خاوند کے دیے ہوئے مال و متاع کو واپس دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرلے، شوہر کے دیے ہوئے مال کو واپس کرنے میں عورت پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ اسے قبول کرنے میں شوہر پر کوئی مضائقہ ہے اور اسی کو خلع کہا جاتا ہے۔ ‘‘