کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 130
شوہر کا عورت کو آرام پہنچانا، اس کی خدمت گزاری کرنا، جھاڑو دینا، آٹا گوندھنا، کپڑے دھونا، بستر لگانا اور گھریلو ذمہ داریوں کو بجا لانا منکر (ناپسندیدہ) کاموں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ (البقرہ:۲۲۸) ’’ اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ۔ ‘‘ اور ارشاد فرماتا ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ ﴾ (النساء:۳۴) ’’ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ ‘‘ اب اگر عورت شوہر کی خدمت نہ کرے، بلکہ شوہر ہی عورت کا خادم بن کر رہے تو عورت کو مرد پر قوامیت (حاکمیت) حاصل ہوگی۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’ عورت سے استفادہ اور اس کی خدمت گزاری کے عوض مرد پر عورت کے نان و نفقہ، رہائش اور اس کے لباس وغیرہ کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ مزید برآں کسی بھی دو شخص کے مابین طے پانے والے عام معاہدہ کو عرف عام پر ہی محمول کی جاتا ہے اور عرف عام خدمت گزاری اور اندرونِ خانہ کی ضروریات کی انجام دہی عورت کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ‘‘ آگے مزید لکھتے ہیں : ’’ اس سلسلے میں شریف و غیر شریف، فقیر و مالدار کے درمیان تفریق کو روا رکھنا درست نہیں ، دنیا کی تمام عورتوں میں سب سے شریف خاتون سیّدہ فاطمتہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کی خدمت کیا کرتی تھیں ۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہو کر خدمت گزاری کی شکایت کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے