کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 129
کی حفاظت و نگرانی کرے اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( وَالْمَرأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِيْ بَیْتِ زَوْجِھَا [وَمَسْئُوْلَۃٌعَنْ رَعِیَّتِھَا۔))[1] ’’ یعنی عورت اپنے شوہر کے گھر کی محافظ و نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ‘‘ نیز اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ گھر کے تمام کام کو ازخود انجام دے، کسی ایسی خادمہ کو باہر سے بلانے پر مجبور نہ کرے جس سے وہ پریشانی میں مبتلا ہو اور اس کی بناء پر خود اسے یا اس کی اولاد کو فتنہ سے دوچار ہونا پڑے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۳۲/ ۲۶۰، ۲۶۱) میں لکھتے ہیں ؛ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿فَالصَّالِحَاتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ ﴾ (النساء:۳۴) ’’ پس نیک عورتیں اطاعت شعار ہوتی ہیں اور خاوند کی عدم موجودگی میں بحفاظتِ الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں ۔ ‘‘ آیت مبارکہ اس امر کی متقاضی ہے کہ عورت کے اوپر اپنے شوہر کی خدمت گزاری، اس کے ساتھ سفر، اپنے آپ کو اس کے قابو میں دینے (یعنی لطف اندوز ہونے کے لیے) اور دیگر امور میں مطلق اطاعت واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے بھی اسی کا پتہ چلتا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ الھدی النبوی (۵/ ۱۸۸، ۱۸۹) میں فرماتے ہیں : ’’ خاوند کی خدمت گزاری کو جن علماء نے عورت پر لازم اور واجب قرار دیا ہے ان کااستدلال اس امر سے بھی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا مخاطب بنایا ہے، ان کے نزدیک یہی چیز معروف تصور کی جاتی ہے، لیکن
[1] صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا، رقم: ۵۲۰۰۔