کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 125
(( لاَ نِکَاحُ اِلاَّ بِوَلِیٍّ )) [1] ’’ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہے۔ ‘‘ مذکورہ دونوں حدیثوں اور اس معنی و مفہوم کی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر ولی کے نکاح ہوتا ہی نہیں ، کیونکہ کسی حکم کی نفی میں اصل صحت کی نفی ہوتی ہے۔ امام ترمذی کا ارشاد ہے: ’’ اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے، جن میں سیّدنا عمر، علی، ابن عباس اور ابو ہریرۃ ( رضی اللہ عنہم ) وغیرہ بھی شامل ہیں ، اسی طرح فقہاء تابعین سے بھی مروی ہے کہ بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہوتا۔ امام شافعی، احمد اور اسحاق (رحمہم اللہ) کابھی یہی قول ہے۔ ‘‘ (ملاحظہ ہو: المغنی: ۶/۴۴۹) نکاح کے اعلان کی غرض سے بچیوں کا دف بجانا: نکاح کا اعلان اور اسے لوگوں کے مابین شہرت دینے کے لیے بچیوں کا دف بجانا مستحب ہے، بشرطیکہ یہ محض عورتوں کے درمیان ہو اور اس میں موسیقی یا دیگر آلات لہو و لعب نہ ہوں اور نہ ہی پیشہ ور گانے والیوں کی آواز میں ہو۔ اس موقع پر اشعار پڑھنے اور گیت گانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ مردوں تک اس کی آواز نہ پہنچے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: (( فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ الدَّفُّ وَالصَّوْتُ فِي النِّکَاحِ )) [2] ’’ نکاح میں حلال و حرام کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف کا بجانا اور
[1] سنن ترمذی، ابواب النکاح، باب ما جاء لا نکاح الا بولی، رقم: ۱۱۰۱۔ سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب لا نکاح الا بولی، رقم: ۱۸۸۱۔ [2] ترمذی، ابواب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح، رقم: ۱۰۸۸۔ نسائی، کتاب النکاح، باب اعلان النکاح بالصوت وضرب الدف، رقم: ۳۳۷۱۔ ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب اعلان النکاح، رقم: ۱۸۹۶۔