کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 123
’’ اس سلسلے میں اہل علم کے مابین ہمیں کسی اختلاف کا پتہ نہیں ہے کہ شادی شدہ عورت کی اجازت صریح الفاظ میں حاصل کی جائے گی، کیونکہ اس بارے میں واضح حدیث وارد ہے اور اس وجہ سے بھی کہ زبان ہی دل کی ترجمان ہے اور اسی کا ہر ایسے مقام پر اعتبار ہوتا ہے، جہاں اجازت کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ ( ۳۲/ ۳۹۔ ۴۰) میں تحریر کرتے فرماتے ہیں : ’’ کسی شخص کو یہ حق نہیں حاصل ہے کہ وہ کسی عورت کی شادی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر کسی سے کردے۔ یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے، اگر عورت کسی شخص سے شادی کو ناپسند کرتی ہے تو اسے اس شخص سے شادی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں کم سن لڑکی کی شادی اس کا والد اجازت کے بغیر کرسکتا ہے، لیکن شادی شدہ بالغہ عورت کی شادی اجازت کے بغیر نہ تو باپ کرسکتا ہے اور نہ باپ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص، اس مسئلہ میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اسی طرح بالغہ باکرہ (غیر شادی شدہ) عورت کی شادی باپ اور دادا کے علاوہ کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا، اس پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے۔ باپ اور دادا کو بھی اس سے اجازت حاصل کرنی چاہیے، لیکن علماء کے مابین اس اجازت کے حکم میں اختلاف ہے، آیا یہ واجب ہے یا مستحب؟ صحیح قول کے مطابق اجازت حاصل کرنا ان دونوں پر بھی واجب ہے۔ ولی الامر کو اس شخص کے متعلق خوفِ الٰہی اور تقویٰ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جس سے وہ اپنی لڑکی کا کفو بن سکتا ہے یا نہیں ؟ لڑکی کی مصلحت اورر اس کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر اس کی شادی کرنی چاہیے نہ کہ اپنے مفاد اور اپنی مصلحت کی خاطر کسی بھی شخص کے