کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 121
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے اندر اسی پر ایک باب قائم کیا ہے۔ اور اس باب کے تحت سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث کو ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس امر پر اجماع نقل کیا ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی (۶/ ۴۸۷) میں تحریر کرتے ہیں ؛ علامہ ابن المنذرؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ تمام اہل علم جن سے ہم نے علم اخذ کیا ہے، ان کا اس امر پر اجماع ہے کہ والد اپنی کم سن لڑکی کی شادی کرسکتا ہے، بشرطیکہ اس نے شادی میں کفو کا لحاظ رکھا ہو۔ ‘‘ میں (یعنی مؤلف) کہتا ہوں : ’’ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ۶ سال کی عمر میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو شادی کی ہے، اس میں ان لوگوں کی سخت تردید پائی جاتی ہے جو کم عمر بچیوں کی بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ شادی پر نکیر کرتے ہیں اور ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ کتاب و سنت سے جہالت کی بناء پر یا اس کے پیچھے غلط مقاصد کار فرما ہونے کی وجہ سے اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے ایک منکر کام تصور کرتے ہیں ۔ ‘‘ نکاح کے لیے عورت کی رضا مندی اس کی خاموشی میں ہیں : باکرہ (غیر شادی شدہ) بالغہ عورت کی شادی اس کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی اور اس کی خاموشی کو اجازت تصور کیا جائے گا، کیونکہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( لاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوْا: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ! فَکَیْفَ