کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 118
کو ان کی اپنی مخصوص صفات کے ساتھ پیدا کرکے انسانی معاشرے کی تشکیل میں متعدد ساجھی داری اور مشارکت کے لائق اور مناسب بنایا کہ ان کے علاوہ دوسرے ان کاموں کے لیے موزوں و مناسب ہو ہی نہیں سکتے تھے، جیسے حمل، ولادت، رضاعت، بچوں کی تربیت، گھر کی خدمت، کھانا پکانے، آٹا گوندھنے، جھاڑو دینے جیسی گھریلو ذمہ داریوں کا بجا لانا، یہ ساری ذمہ داریاں جن کو خواتین اپنے گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر مکمل پردے، تحفظ، عفت و پاکدامنی، اپنی شرافت و کرامت اور انسانی اقدار کی رعایت کرتے ہوئے انجام دیتی ہیں ، معاش کی خاطر مردوں کی تگ و دو سے کسی طرح کم نہیں ہوتی ہیں ، لہٰذا ان گئے گزرے جاہل کفار اور ان کی تقلید کرنے والوں کا یہ دعویٰ کہ عورتوں کو بھی گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے کے سلسلے میں وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں ۔ اس دعوے میں انسانی اقدار اور دین دونوں کا ضیاع ہے، جب کہ خواتین ایام حمل و رضاعت اور نفاس میں کسی با مشقت ڈیوٹی کو ادا کرنے کی قوت و طاقت نہیں رکھتی ہیں ۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے، اگر عورت اور اس کا شوہر دونوں ہی گھر سے باہر کام کے لیے نکل جائیں گے تو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال، شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے اور ڈیوٹی سے فراغت کے بعد مردوں کی گھر واپسی کے وقت ان کے لیے کھانا وغیرہ کی تیاری جیسی ذمہ داریاں معطل ہو کر رہ جائیں گی، اگر کسی شخص کو اس عورت کی جگہ اجرت پر رکھ دیا جائے تو وہ شخص خود اس گھر کے اندر اسی تعطل کا شکار ہو کر رہ جائے گا جس تعطل سے فرار اختیار کرنے کے لیے عورت نے گھر سے باہر قدم نکالا تھا۔ علاوہ ازیں کام کے لیے عورت کا گھر سے باہر نکلنا اور اسے ہر طرح کے کاموں میں گھسیٹنا اس میں انسانی قدر اور دین دونوں کا ضیاع ہے۔ لہٰذا مسلم بہنوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور اس قسم کے باطل پروپیگنڈوں کے قریب نہیں جانا چاہیے، کیونکہ ان پُر فریب پروپیگنڈوں سے متاثر ہونے والی خواتین کے حالات ہی ان پروپیگنڈوں کی ناکامی اور ان کے بطلان کی بہتر دلیل ہیں ۔ کہا جاتا