کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 105
کی حدیث کا جواب جس کا ابھی تذکرہ کیا گیا ہے، نقل کیا ہے، پھر فرماتے ہیں : ’’ حدیث میں سائل کے اس قول (( قَبْلَ أَنْ أَطُوْفَ )) سے مراد طواف افاضہ ہے، جس کو رکن کی حیثیت حاصل ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ اس نے طواف قدوم جس کو رکن کی حیثیت نہیں حاصل ہے کے بعد سعی کی تھی۔ ‘‘ علامہ ابن قدامہ المغنی (۵/ ۲۵۰ طبع ہجر) میں رقم طراز ہیں : ’’ سعی طواف کے تابع ہے، لہٰذا طواف سے پہلے سعی کرنا درست نہیں ہے، اگر طواف سے پہلے کسی نے سعی کرلی تو یہ سعی صحیح نہیں ہوگی۔ امام مالک، امام شافعی اور اصحاب رائے رحمہم اللہ کا یہی قول ہے۔ امام عطاء رحمہ اللہ کے قول کے مطابق یہ سعی صحیح ہوجائے گی۔ امام احمد رحمہ اللہ سے مرو ی ہے کہ اگر بھول سے سعی پہلے کرلی تو صحیح ہوجائے گی اور اگر عمداً کی ہے تو درست نہیں ہوگی۔ کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لاعلمی اور نسیان کی صورت میں تقدیم و تاخیر کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (( لاَ حَرَجَ )) (یعنی کوئی بات نہیں ) فرمایا تھا۔ ‘‘ اول الذکر مسلک کی توجیہ یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے بعد سعی کی تھی اور فرمایا تھا: (( لِتَأْخُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ۔)) [1] ’’ اپنے مناسک حج مجھ سے سیکھو۔ ‘‘ سابقہ سطور سے واضح ہوگیا کہ طواف سے ماقبل سعی کو صحیح قرار دینے والوں کا سیّدنا ابن شریک رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے استدلال درست نہیں ہے۔ حدیث میں اس مسئلے سے کوئی تعرض ہی نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ مذکور حدیث دو میں سے کسی ایک حالت
[1] المسند للامام احمد، رقم الحدیث: ۵/ ۱۴۶۲۴۔