کتاب: خواتین کے مخصوص مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں - صفحہ 103
’’ مذکورہ حدیث سے حائضہ کے لیے طواف سے نہی (ممانعت) واضح طور پر ثابت ہوتی ہے، یہاں تک کہ حیض کا خون بند ہوجائے اور وہ غسل (طہارت) سے فارغ ہوجائے اور نہی (ممانعت) فساد کو چاہتی ہے، جس سے عمل کا بطلان مراد ہوتا ہے، لہٰذا اس حائضہ کا طواف باطل ہے، یہی جمہور کا قول ہے۔ ‘‘ ایسی عورت صفا و مروہ کے مابین سعی بھی نہیں کرے گی، کیونکہ سعی اس طواف کے بعد ہی صحیح ہوسکتی ہے جسے حج کے رکن کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی طواف کے بعد ہی کی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ المجموع (۸/ ۸۲) میں لکھتے ہیں : ’’ اگر کسی نے طواف سے پہلے سعی کرلی تو ہمارے نزدیک اس کی سعی درست نہیں ہوگی۔ ‘‘ یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ امام ماوردی سے ہم یہ نقل کر آئے ہیں کہ انھوں نے اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام احمد (رحمہم اللہ) کا بھی یہی مذہب ہے۔ علامہ ابن المنذر نے امام عطاء اور بعض اہل الحدیث سے اس کی صحت نقل کی ہے۔ (یعنی اگر طواف سے پہلے سعی کرلی تو اس کی سعی صحیح مانی جائے گی۔) ہمارے اصحاب (علماء مذہب) نے امام عطاء اور داؤد ظاہری رحمہم اللہ سے اسے نقل کیا ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے بعد ہی سعی کی تھی اور فرمایا تھا: (( لِتَأْخُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ۔))[1] ’’تاکہ تم مجھ سے اپنے مناسک حج حاصل کرلو۔ ‘‘ رہی صحابی رسول ابن شریک رضی اللہ عنہ کی حدیث، جس میں آپ فرماتے ہیں ؛ میں حج کے لیے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تھا، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے۔ بعض
[1] المسند للامام احمد، رقم الحدیث: ۵/۱۴۶۲۴۔