کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 96
نہیں،کوئی اُلو نہیں[1]اور نہ کوئی صفر ہے۔"[2] اور ایک روایت میں ہے "کوئی ستارہ نہیں،کوئی بصوت نہیں۔"[3] صاحب شریعت علیہ السلام نے ان سب چیزوں کی نفی کی ہے اور بتایا ہے کہ ان کا کوئی وجود نہیں،نہ کوئی تاثیر ہے۔بلکہ یہ دلوں میں آنے والے وہم اور فاسد خیالات ہیں۔"کوئی صفر نہیں" میں آپ نے واضح فرمایا کہ اہل جاہلیت جو صفر کے مہینہ کو نجس سمجھتے تھے اور یہ کہ اس میں مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں،یہ سب غلط اور باطل ہے۔آپ نے بتایا کہ یہ بھی دیگر مہینوں کی طرح کا ایک مہینہ ہے۔کسی نفع کے حاصل ہونے یا دکھ تکلیف کے ٹلنے ٹالنے میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔یہی حال راتوں اور دنوں کا ہے اور سب گھڑیاں اور ساعتیں ایک سی ہیں۔اہل جاہلیت بدھ کے دن کو نحس سمجھتے تھے اور ماہ شوال کو برا خیال کرتے تھے بالخصوص اس میں نکاح کرنا بہت بھاری سمجھتے تھے۔اس بارے میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ماہ شوال میں شادی کی تھی،بھلا مجھ سے بڑھ کر بھی کسی کو آپ کے ہاں مقام و مرتبہ ملا ہے؟"[4] ان اعداد اور ایام وغیرہ کو منحوس جاننا ایسی ہی جیسے کہ رافضی لوگ دس کے عدد کو نحس سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں صحابہ رسول میں سے جنت کی بشارت دئیے گئے "عشرہ ٔمبشرہ" سے بغض و عداوت ہے،یہ سراسر ان کی جہالت اور کم عقلی دلیل ہے اور اس مسئلے کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے منہاج السنۃ میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے اور یہ کتاب روافض کی تردید میں بڑی جامع ہے۔ ایسے ہی ستارہ پرست اور نجوم کا خبط رکھنے والے لوگوں نے اوقات کو ساعات سعد اور نحس میں تقسیم کر رکھا ہے۔جبکہ دین اسلام میں ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا حرام بتایا گیا ہے اور یہ جادو کی ایک قسم ہے،جس کی تفصیل اپنے مقام پر موجود ہے۔الغرض یہ سب باتیں جاہلیت کی عادات میں سے ہیں جن کی شریعت نے تردید و نفی کی ہے۔
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ "ہامہ" کے ترجمہ میں تفصیل ہے۔ النہایہ ابن اثیر میں ہے کہ "اس کے ایک معنیٰ کھوپڑی کے ہیں اور ایک پرندے کو بھی کہتے ہیں جس سے کہ عرب بدفالی لیتے تھے اور حدیث میں یہی مراد ہے اور سمجھتے تھے یہ رات کو نکلتا ہے۔ کچھ نے اس کا مفہوم "الو" بھی بتایا ہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ عرب کا خیال تھا کہ اگر کسی مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح ایک پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر وہ پکارتا رہتا ہے،"مجھے پلاؤ مجھے پلاؤ"تو اگر بدلہ لے لیا جائے تو وہ اڑ جاتا ہے۔ کچھ نے کہا کہ میت کی ہڈیاں یا اس کی روح پرندہ بن کر اڑتی رہتی ہے جسے کہ صدى کہتے تھے۔ اسلام نے ان سب کی تردید کی ہے۔ [2] صحيح البخارى،كتاب الطب،باب الحذام،حديث 5380 صحيح مسلم،كتاب السلام،باب لاعدوى ولا طيرة ... حديث 2220 [3] صحيح مسلم،كتاب السلام،باب لاعدوى ولا طيرة ... حديث 2220, 2221 [4] صحيح مسلم،كتاب النكاح،باب استحباب التزويج والتزويج فى شوال ... حديث 1423. مسند احمد بن حنبل:6؍54 حديث 24317،اسناده صحيح على شرط الشيخين