کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 871
"ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے،ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے،اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈا جائے۔" [1] امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں،اگر بچے کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جائے اور وہ فوت ہو جائے تو وہ اپنے ماں باپ کے حق میں سفارش نہیں کر سکے گا۔بعض علماءنے کہا ہے کہ "ہر بچہ عقیقہ کے ساتھ گروی ہے۔" کے معنی یہ ہیں کہ جب تک اس کی طرف سے جانور ذبح نہ کر لیا جائے اس کا نام نہ رکھا جائے اور نہ اس کا سر مونڈا جائے اور ذبح کرتے ہوئے یوں کہا جائے: (هذه عقيقة فلان باسم اللّٰه،اللّٰهم منك ولك اللّٰه اكبر) "یہ فلاں کا عقیقہ ہے،اللہ کے نام سے،اے اللہ یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی حضور پیش ہے،اللہ سب سے بڑا ہے۔" بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عقیقہ سنت مستحبہ ہے اور واجب نہیں۔اور یہ مذہب ہی درست ہے۔مسند احمد اور ابوداؤد میں بسند حسن،عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: "صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا:"اللہ تعالیٰ کو تمہارا عقوق (نافرمان اور عصیان) ناپسند ہے صحابہ نے کہا:اے اللہ کے رسول!ہم اس بارے میں نہیں بلکہ اس بارے میں معلوم کرنا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں کسی بچے کی ولادت ہوتی ہے تو فرمایا:جو اپنے بچے کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے اسے کر دینی چاہیے ۔لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ہوں ایک جیسی،اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔" [2] الغرض عقیقہ مستحب عمل ہے۔ اور غور کیا جائے کہ یہ عمل "غلام اور جاریہ" کے لیے ہے (یعنی لڑکا اور لڑکی،جو بالغ نہ ہوئے ہوں انہیں عربی میں غلام اور جاریہ کہتے ہیں)۔یہ عمل بلوغت سے پہلے تک کے ساتھ مقید ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ "ساتویں دن ذبح کیا جائے۔" یہ وقت تعین کے لیے نہیں ہے بلکہ اختیار اور ترجیح کے لیے ہے۔اور اگر اس کے بعد بلوغت سے پہلے پہلے کر دیا جائے تو جائز ہے۔بچہ جب بالغ ہو جائے تو مخاطب سے یہ ساقط ہو جائے گا۔بعد میں بچے اپنی طرف سے کریں تو جائز ہے۔لیکن احادیث میں یہ حکم "غلام
[1] صحیح بخاری،کتاب العقیقۃ،باب اماطۃ الاذی عن الصبی فی العقیقۃ،حدیث:5472سنن الترمذی،کتاب الاضاحی،باب من العقیقۃ،حدیث:1522ومسند احمد بن حنبل:5؍17،حدیث:20201۔ [2] سنن ابی داود،کتاب العقیقۃ،حدیث:2842وسنن النسائی،کتاب العقیقۃ،حدیث:4212 ومسند احمد بن حنبل:2؍182،حدیث:6713۔