کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 870
بِهِ،أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ) [1] "جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو سوائے تین صورتوں کے،اس کے سب اعمال منقطع ہو جاتے ہیں،اور وہ تین یہ ہیں:صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔" (محمد بن صالح عثیمین) احکام عقیقہ سوال:(1) میرا ایک بیٹا اور بیٹی ہے،مگر ان کی ولادت کے مواقع پر مجھے اس قدر گنجائش نہ تھی کہ ان کے عقیقے کرتا۔اب وہ بڑے ہو گئے ہیں یعنی 19 سال اور 16 سال کے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ عقیقہ بہت ضروری ہے۔اور یہی حال میرا بھی ہے کہ میرے والد نے میرا عقیقہ نہیں کیا تھا ۔تو کیا اب میں اپنا اور بچوں کا عقیقہ کر سکتا ہوں۔میں اللہ تعالیٰ کی قربت اور رضا چاہتا ہوں،تاکہ ہمارے تمام احوال کی اصلاح اور ان میں خیر ہو۔یا اب یہ ہم سے ساقط ہو چکا ہے؟ (2) اگر اسلامی کیسٹیں اور کتابچے بطور صدقہ تقسیم کیے جائیں اور بچوں کی طرف سے تقسیم کیے جائیں تو کیا اس کا فائدہ ہو گا؟ بہرحال مجھے اب کیا کرنا چاہیے ؟ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دے۔ جواب:جمہور علماء کے مذہب کے مطابق عقیقہ سنت ہے۔اہل ظاہر اور تابعین میں سے حسن بصری رحمہ اللہ اسے واجب کہتے ہیں۔ان کی دلیل وجوب حضرت سلمان الضبی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو بخاری میں تعلیقا اور مسند احمد اور کتب سنن میں موصولا بسند صحیح وارد ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا،وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى) [2] "لڑکے کی طرف سے عقیقہ ہے،اس کی طرف سے خون بہا اور اس سے میل کچیل (بال) دور کر۔" "اهرق" صیغہ امر،وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔" ایسے ہی صحیح بخاری،کتب سنن اور مسند احمد میں ہے،حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب مایلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ،حدیث:1631وسنن ابی داود،کتاب الوصایا،باب ماجاءفی الصدقۃ عن المیت،حدیث:2880وسنن الترمذی،کتاب الاحکام،باب فی الوقف،حدیث:1376وسنن النسائی،کتاب الوصایا،باب فضل الصدقۃ عن المیت،حدیث:3651۔ [2] صحیح بخاری،کتاب العقیقۃ،باب اماطۃ الاذی عن الصبی فی العقیقۃ،حدیث:5471وسنن ابی داود،کتاب العقیقۃ،حدیث:2839وسنن الترمذی،کتاب الاضاحی،باب الاذان فی اذن المولود،حدیث:1515وسنن ابن ماجہ،کتاب الذبائح،باب العقیقۃ،حدیث:3164۔