کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 833
صدق و ثبات کے ساتھ اپنی صلاحیتیں خرچ کر رہی ہیں۔ اور معلوم ہونا چاہیے کہ لڑکوں کی تعلیم دینے کے لیے مرد اساتذہ زیادہ لائق اور باصلاحیت ہیں۔خواتین کے مقابلے میں وہ زیادہ وقت دے سکتے ہیں۔علاوہ ازیں پرائمری حصہ میں یا اس سے اوپر لڑکے ہمیشہ مرد اساتذہ ہی سے ہیبت میں رہتے ہیں،ان کا احترام کرتے ہیں اور کماحقہ ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں،بمقابلہ اس کے جو عورتوں سے ہوتا ہے۔اس طرح سے انہیں مردانہ اخلاق و کردار،عزت و وقار،صبر اور برداشت اور اظہار قوت کا درس بھی ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان صحیح طور سے ثابت ہے کہ: "اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو،اگر نہ پڑھیں اور دس سال کے ہو جائیں تو ان کو سزا دو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔"[1] اس حدیث شریف میں لڑکے اور لڑکیوں کے اختلاط کی خرابی سے متنبہ کیا گیا ہے اور تمام مراحل میں اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔اس کے دلائل قرآن،سنت اور حالات حاضرہ میں اس قدر زیادہ ہیں کہ یہاں اختصار کے پیش نظر انہیں دہرانا نہیں چاہتا۔اور یہ سب امور ہماری حکومت،وزیر تعلیم اور تعلیم البنات کے سربراہ اور دیگر حضرات کے علم میں ہیں اور تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان اعمال کی توفیق دے جس میں امت کی اصلاح اور اس کی نجات ہے اور ہمارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور قریب ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:ہمارے سلوک میں ایک مختصر سی لائبریری تھی جس میں کتابوں کے علاوہ رسائل وغیرہ بھی آتے تھے۔طالبات اور معلمات ان سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھاتی تھیں۔ان میں چند دینی اور طبی کتابیں میں نے اٹھا لی تھیں۔اب تین سال ہونے کو آئے ہیں میں نے وہ واپس نہیں کیں،اور میں ان سے استفادہ کرتی رہتی ہوں اور واپس نہیں کرنا چاہتی۔مجھے ایک بہن نے اس طرف توجہ دلائی ہے۔تو اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ جواب:آپ پر واجب ہے کہ انہیں اس مکتبہ میں واپس کریں۔کیونکہ یہ کتب و رسائل مکتبہ کے لیے وقف کے معنی میں ہیں۔پبلک لائبریری یا سکول لائبریری سے اس طرح سے بلا اجازت کتب اٹھا لینا جائز نہیں۔لینی بھی ہوں تو ذمہ دار کی اجازت سے عاریتا ایک وقت تک کے لیے لی جا سکتی ہیں۔آپ کو چاہیے کہ انہیں واپس کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ سے توبہ بھی کریں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی توبہ قبول کرے اور قصور معاف فرما
[1] سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب متی یومر الغلام بالصلاۃ،حدیث:495۔مسند احمد بن حنبل:2؍180،حدیث:6689،مصنف ابن ابی شیبۃ:1؍304،حدیث:3482۔