کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 83
فلاں!قسم ہے میری زندگی کی۔یا یوں کہے:اگر ہماری یہ کتیا نہ ہوتی تو چور آ گئے ہوتے۔یا اگر گھر میں بطخ نہ ہوتی تو چوروں نے لوٹ لیا ہوتا۔یا کوئی یوں کہے:جو چاہا اللہ نے اور تو نے۔یا اگر اللہ نہ ہوتا اور فلاں۔اس قسم کی گفتگو میں فلاں کا ذکر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب اللہ کے ساتھ شریک بنانے والی بات ہے۔" [1]یہ اور اس قسم کی باتیں شرک اصغر میں سے ہیں۔ ایسے ہی غیراللہ کی قسم اٹھانا مثلا کعبہ کی قسم،انبیاء کی قسم،امانت کی قسم،فلاں کی زندگی کی قسم،فلاں کی شرافت یا عظمت کی قسم وغیرہ شرک اصغر ہیں۔مسند میں سند صحیح سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے،فرمایا کہ:"جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام قسم اٹھائی اس نے شرک کیا۔"[2] امام احمد،ابوداود اور ترمذی نے بسند صحیح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس نے غیراللہ کی قسم اٹھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا"[3] .......اس روایت میں لفظ او (یعنی یا) ممکن ہے راوی کا شک ہو یا بمعنی و ہو تو مفہوم یہ ہو گا کہ "اس نے کفر کیا اور شرک کیا۔" صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو کوئی قسم اٹھانا چاہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کے نام سے قسم اٹھائے ورنہ خاموش رہے۔"[4] اور اس معنیٰ کی احادیث بہت زیادہ ہیں۔ یہ سب صورتیں شرک اصغر کی ہیں اور عین ممکن ہے کہ ایسی بات بولنے والے کے دل میں اگر کھوٹ ہو تو یہ شرک اکبر ہو۔مثلا اگر کسی کے دل میں یہ بات ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا شیخ بدوی یا شیخ فلاں تصرف میں اللہ کی طرح ہے،یا اسے بھی اللہ کے ساتھ پکارا جا سکتا ہے یا اس کا بھی اس کائنات میں کوئی عمل دخل ہے تو اس عقیدے کی بنا پر یہ باتیں شرک اکبر ہوں گی۔لیکن اگر کسی کا عقیدہ اس طرح کا نہ ہو اور بلا ارادہ اس کی زبان پر اس طرح کے کوئی جملے آ جائیں کیونکہ پہلے لوگ اس طرح سے بولا کرتے تھے تو یہ شرک اصغر ہو گا۔ شرک کی ایک اور قسم بھی ہے یعنی شرک خفی۔بعض علماء نے اسے تیسری قسم شمار کیا ہے،اور وہ اس کی دلیل میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کیا کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی بڑھ کر اندیشہ ہے؟ صحابہ نے کہا:کیوں نہیں،اے اللہ کے رسول!فرمایا:
[1] اسے ابن حاتم نے بسند حسن روایت کیا ہے دیکھیے :تفسیر ابن ابی حاتم :۱؍ ۵۸ [2] مسند احمد بن حنبل:1؍47،حديث 329،اسناده صحيح على شرط البخارى [3] سنن ترمذى،كتاب النذور والايمان ،باب كراهية الحلف بغير اللّٰه،حديث 1535،صحيح المستدرك للحاكم:4؍330 حديث 7814،صحيح على شرط الشيخين. مسند احمد بن حنبل:2؍125 حديث 6072 [4] صحيح البخارى،كتاب القدر،باب لا تحلفوا بآبائكم،حديث:6270۔ صحيح مسلم،كتاب الايمان،باب النهى عن الحلف بغير اللّٰه تعالىٰ،حديث 1464