کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 826
سے پہلے رکھا کرتے تھے۔جمہور کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ بندہ پہلے اپنے گھٹنے رکھے،اس کے بعد اپنے ہاتھ۔ان کا استدلال حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہے: قَالَ:رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«إِذَا سَجَدَ،يَضَعُ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ،وَإِذَا نَهَضَ رَفَعَ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ " "کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سجدہ کرتے تو آپ پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے پھر ہاتھ رکھتے،اور جب اٹھتے تو پہلےہاتھ اٹھاتے پھر گھٹنے۔" [1] مگر اس حدیث کا مدار شریک بن عبداللہ قاضی پر ہے،جو سیئ الحفظ ہے،اور اس قسم کی سنتوں میں اس کا تفرد قابل قبول نہیں ہے۔ خیال رہے کہ اس مقام پر اس حدیث میں امام ابن القیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد میں) ایک اور بحث چھیڑ دی ہے۔ان کے بقول اس حدیث کے آخری حصے کے الفاظ راوی سے آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔ان کے کہنے کے مطابق گویا اصل روایت یوں تھی (ويضع يديه ثم ركبتيه) کیونکہ اگر آدمی پہلے ہاتھ رکھے اور گھٹنے بعد میں رکھے تو یہ عین اونٹ کا بیٹھنا ہے۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہے (یہاں کوئی قلب نہیں ہوا بلکہ) اس حدیث کی ہم معنی ایک اور حدیث دارقطنی اور حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: "أن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم إذا سجد وضع يديه ثم ركبتيه" "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو پہلے اپنے ہاتھ رکھتے تھے پھر اپنے گھٹنے۔" [2] یہ حدیث بقول علامہ البانی رحمہ اللہ علیٰ شرط مسلم صحیح ہے اور اس مسئلہ میں قول فیصل ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے پہلے اور آخری حصے میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
[1] سنن الترمذی،ابواب الصلاۃ،باب وضع الرکبتین قبل الیدین فی السجود،حدیث:268سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ،حدیث:838و سنن النسائی کتاب صفۃ الصلاۃ،باب اول مایصل الی الارض من الانسان فی سجودہ،حدیث:1089 سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ،الصلاۃ،باب السجود،حدیث:882،سنن الدارمی:1؍347،حدیث:1320۔فتویٰ میں مذکورہ الفاظ ترمذی اور سنن الدارمی کے ہیں دیگر میں"یضع" کی جگہ"وضع"ہے۔(عاصم) [2] حاکم اور دارقطنی میں بعینہ الفاظ نہیں ملے،البتہ حاکم میں یہ الفاظ ہیں:'کان یضع یدیہ قبل رکبتیہ 'اور دارقطنی میں'کان اذا سجد یضع یدیہ قبل رکبتیہ 'کے الفاظ ہیں۔حاکم کی روایت میں ابن عمررضی اللہ عنہما کا اپنا عمل ہے جسے انہوں نے مرفوع قرار دیا ہے،اور دارقطنی میں ابن عمررضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان کرتے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب۔المستدرک للحاکم:1؍348،حدیث:821و سنن الدارقطنی:1؍344،حدیث:2.