کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 823
"اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:میں اپنے بندے سے جب اس کی اہل دنیا میں سے کسی محبوب چیز کو لے لوں اور پھر وہ اس پر ثواب کا امیدوار ہو تو اس کے لیے جنت سے ورے اور کوئی بدلہ نہیں۔"[1] توان شاءاللہ اس حدیث کی روشنی میں ایک بچہ بھی اگر فوت ہو جائے اور پھر اس کی ماں یا باپ یا دونوں ہی صبر کریں تو ان دونوں کے لیے اللہ کے فضل سے جنت ہے۔اور یہی حکم شوہر،بیوی و اقارب کے امیداوار ہوں تو اس حدیث کی روشنی میں اس خوشخبری میں داخل ہوں گے،بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوئے ان کی وفات ہو۔ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔ (2) بیٹیوں کے ساتھ احسان کے معنی: ان کے ساتھ احسان کے معنی ہیں کہ ان کی تربیت اسلامی اصولوں پر کی جائے،حق پر ان کی پرورش ہو،انہیں عفیف و پاک دامن رکھا جائے،اظہار و زینت وغیرہ کے اعمال سے بچایا جائے۔اور یہی عمل بہنوں کے علاوہ لڑکوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا احسان و سلوک کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ ان سب کی اٹھان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ہو،حرام کاموں سے بچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس احسان کے معنی صرف کھلانے پلانے اور لباس تک محدود نہیں ہیں،بلکہ اس کے معنی اس سے وسیع تر ہیں کہ دین و دنیا کے سبھی معاملات میں ان کے ساتھ احسان کیا جائے۔ (3) کیا ان وعدوں کے حصول کے لیے کبیرہ گناہوں سے بچنا شرط ہے؟ ہاں،یہ ایک اہم اصول و قاعدہ ہے اور اہل السنۃ کا اس پر اجماع ہے کہ رب تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت یا جنت یا جہنم سے نجات کے جو وعدے کیے ہیں وہ سب مشروط ہیں اس بات سے کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچنے والا ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا﴿٣١﴾(النساء:4؍31) "اگر تم منع کیے گئے کبیرہ گناہوں سے بچو گے،ہم تمہاری دوسری غلطیاں معاف کر دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ میں داخل کریں گے۔" یہ دلیل ہے کہ جو کبیرہ گناہوں سے اجتناب نہیں کرے گا،اسے یہ جزا بھی حاصل نہ ہو گی۔کیونکہ ' ان تجتنبوا' شرط اور اس کے بعد ' نكفر عنكم' اس کی جزا اور جواب شرط ہے۔
[1] صحیح بخاری،کتاب الرقائق،باب العمل الذی یبتغی بہ وجھہ اللّٰه،حدیث:6060،مسند احمد بن حنبل:2؍417،حدیث:9382روایات میں"المومن"کے بعد"عندی"اور"اخذت"کے جگہ"قبضت"ہے۔(عاصم)