کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 821
جسم کسی اجنبی کے سامنے ظاہر نہیں کر سکتی،اور سینہ تو اور بھی حساس مقام ہے۔پھر مرد اس پر ہاتھ رکھے،کجا یہ کہ وہ اسے چوسے۔اس سے جانبین کے جذبات میں ایگخت ہو گی۔ دلائل ان چیزوں کے برعکس ہیں،اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ (البقرۃ:2؍233) "مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔" جمہور اس طرف گئے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ بعض نے کہا:یہ سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ خاص تھی۔صحیح مسلم میں ہے،سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ) باقی تمام ازواج نبی نے ایسی رضاعت سے کسی بڑے بچے کو اپنے اوپر داخل ہونے کا انکار کیا۔[1] اور ہم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:ہم سمجھتی ہیں کہ یہ ایک خاص رخصت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم رضی اللہ عنہ کے لیے دی تھی،اس لیے ایسی رضاعت سے ہم پر کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ امام ابن حزم،لیث بن سعد،عروہ بن زبیر (تبعی) رحمہم اللہ اور ان سے قبل صحابہ میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رضاعت کبیر کی قائل ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی نوے سال کا بھی ہو اور کسی عورت کے دودھ کا پانچ رضعہ (گھونٹ) پی لے،تو وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن جائے گی اور اس کے لیے حرام ہو گی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک درمیانی راہ اختیار کی ہے کہ یہ جناب سالم رضی اللہ عنہ کے لیے رخصت تھی اور یہ ہر اس شخص کے لیے جو اس قسم کے حالات میں ہو،رخصت ہو سکتی ہے۔مثلا کوئی بچہ کسی عورت کی گود میں پلا بڑھا ہو اور اسے اپنی ماں سمجھتا ہو،بڑا ہونے پر بھی وہ اس سے معانقہ کرتا اوراس کا بوسہ لیتا ہو،اس یقین کے ساتھ کہ یہ اس کی ماں ہے،پھر اسے اچانک بتایا جائے کہ یہ تیری ماں نہیں ہے،تو اس کے جذبات یکدم تبدیل نہیں ہو جائیں گے۔اس پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ اس قسم کے حالات میں اس حدیث کو ہم سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیوں خاص کر دیں،بلکہ ایسے شخص کے لیے رضاعت (کبیر) کی رخصت ہو گی۔مثلا اگر کسی ماں باپ نے کسی بچے کو بطور متنبیٰ لیا ہو اوروہ اس کا حکم نہ جانتے ہوں کہ متنبیٰ بنانا ناجائز ہے،پھر بعد میں علم ہو تو عورت کے لیے جائز ہو گا کہ ایسے بڑے بچے کو دودھ پلا سکتی ہے،خواہ وہ مرد بھی بن گیا ہو۔ اگر آپ اس پر مطمئن نہ ہوں تو آپ کے سامنے جمہور کا قول موجود ہے۔اور یہ احادیث سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو مقید بنا سکتی ہیں۔اس میں امہات مومنین کے قول کی دلیل ہے کہ یہ خاص رعیت تھی جو
[1] صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب رضاعۃ الکبیر،حدیث:1453ومسند احمد بن حنبل:6؍174،حدیث:25454۔