کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 790
ہیں،تو کیا میں ا س پر خاموش رہوں یا انہیں متنبہ کروں؟ جواب:کسی بھی مسلمان کے لیے دو رنگی باتیں کرنا جائز نہیں ہے۔نبی علیہ السلام کا فرمان ہے: (تَجِدُونَ شَرَّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ،يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ ) [1] اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی کسی کی اس کے منہ پر بڑی تعریف کرے اور مقصد اس سے کوئی دنیاوی ہی ہوتا ہے،پھر پیٹھ پیچھے دوسروں کے سامنے اس کی مذمت کرتا اور عیب چینی کرتا ہے،بلکہ ہر وہ آدمی جس کے ساتھ اس کی مناسبت نہیں ہوتی اس کا طرز عمل یہی ہوتا ہے۔تو جس آدمی کو کسی کے متعلق علم ہو کہ وہ اس دو رنگی کا مرتکب ہوتا ہے تو چاہیے کہ اسے نصیحت کرے اور اس برے فعل سے متنبہ کرے کہ یہ منافقوں کا کام ہے۔اور اسے یقین ہونا چاہیے کہ لوگ جلد یا بدیر اس کی اس بد خصلت کو پہچان جائیں گے،اور پھر اس کو بہت برا سمجھنے لگیں گے اور پھر اس کی مجلس اور صحبت سے گریز کرنے لگیں گے،تب اسے اپنے مقاصد حاصل نہ ہوں گے۔اور اگر یہ اس نصیحت سے فائدہ نہ اٹھائے تو اس سے اور اس کے فعل سے متنبہ رہنا چاہیے۔ خواہ اس کے متعلق لوگوں کو بتانا پڑے (اور یہ غیبت جائز ہو گی)۔بعض روایات میں آیا ہے: "اذكروا الفاسق بما فيه كى يحذره الناس" "فاسق کی بد عادت کا ذکر کرو،تاکہ لوگ اس سے متنبہ رہیں۔" (عبداللہ بن الجبرین) سوال:میں دیکھتی ہوں کہ میری والدہ محترمہ کا عمل درست نہیں ہے۔میں انہیں سمجھاتی ہوں تو وہ مجھ سے ناراض ہو جاتی ہیں اور پھر کئی کئی دن گزر جاتے ہیں کہ وہ مجھ سے بات نہیں کرتی ہیں۔مجھے ان کو نصیحت کرنے میں کیا اسلوب اختیار کرنا چاہیے کہ ان کی ناراضی کا بھی سامنا نہ کرنا پڑے اور اللہ بھی ناراض نہ ہو کہ وہ مجھے مسلسل بد دعائیں دینے لگتی ہیں۔یا پھر میں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دوں تاکہ مجھے ان کی رضا مندی حاصل رہے اور ا للہ عزوجل کی رضا مندی بھی؟ جواب:آپ کو چاہیے کہ اپنی والدہ کو خیر خواہی کی بات کرتی رہیں اور واضح کریں کہ یہ عمل گناہ اور سزا کا باعث ہے۔اگر وہ اس سے متاثر نہ ہو تو پھر اس کے شوہر یا والد یا کسی اور ولی سے کہیں جو اس کو سمجھائے۔اور پھر اگر اس کا یہ عمل کوئی کبیرہ گناہ ہو تو آپ اس سے مقاطعہ کر لیں تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔اس کی بددعائیں یا الزام مقاطعہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی،بشرطیکہ آپ نے یہ سب برائی کے اظہار اور اللہ کے لیے غیرت سے کیا ہو۔اور اگر یہ عمل صغیر ہ گناہ ہو تو مقاطعہ جائز نہیں ہے۔(عبداللہ بن الجبرین)
[1] صحیح بخاری،کتاب المناقب،باب قول اللّٰه تعالیٰ :یایھا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی،حدیث:3304وصحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب خیار الناس،حدیث:2526مسند اسحاق بن راھویہ:1؍226،حدیث:183۔