کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 77
بات کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ ایک اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اس جملہ میں نفی اور اثبات میں دو باتیں ہیں۔نفی میں ہے لا الٰہ اور اثبات میں ہے الا اللہ۔(عربی گرائمر کے انداز میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ "اللہ" لا نفی جنس کی خبر جو محذوف ہے،سے بدل ہے۔اور اصل عبارت یوں بنتی ہے ’’ لا اله حقا الا اللّٰه ‘‘یعنی نہیں ہے کوئی معبود برحق،سوائے اللہ کے)۔زبان کا یہ اقرار دل کے یقین و اعتراف پر مرتب ہونا ہے،جس میں خالص ایک اکیلے اللہ کو عبادت کا مستحق اور اس کے علاوہ باقی سب کی عبادت کی نفی کا اظہار ہے۔ اس جملہ مذکورہ بالا تفصیل و توضیح سے کہ اصل جملہ " لا اله حقا الا اللّٰه " ہے،وہ الجھن دور ہو جاتی ہے جو بہت سے لوگ پیش کرتے ہیں کہ یہ بات "اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں" کس طرح صحیح ہو سکتی ہے حالانکہ دنیا میں بے شمار معبود ہیں جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جا رہی ہے،اور اللہ نے بھی ان کو آلہہ کہا ہے اور ان کے عابدین بھی ان کو اپنا الٰہ باور کراتے ہیں۔جیسے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ مِن شَيْءٍ لَّمَّا جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ (ھود 11؍101) "پھر کچھ کام نہ آئے ان کے وہ آلہہ (معبود) کسی چیز میں جنہیں وہ اللہ کے علاوہ پکارتے تھے،جس وقت تیرے رب کا حکم آ پہنچا۔" اور فرمایا: وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ إِلَـٰهًا آخَرَ (الاسراء 17؍39) "اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو الٰہ (معبود) مت بنا۔" اور فرمایا: وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ إِلَـٰهًا آخَرَ (القصص 28؍88) "اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو الٰہ مت پکار۔" اور فرمایا: لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِهِ إِلَـٰهًا (الکھف 18؍14) "غار والوں نے کہا ۔۔اور ہم ہرگز نہیں پکاریں گے اس کے علاوہ کسی اور الٰہ کو۔" تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہیں حالانکہ ثابت ہیں؟ اور تمام انبیاء و رسل نے غیراللہ کی الوہیت کی نفی کی ہے،یہ اپنی قوموں سے کہتے رہے ہیں: اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ (الاعراف 7؍59) "اللہ ہی کی عبادت کرو،تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی الٰہ نہیں ہے۔"