کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 75
بیٹھو اور پھر اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو جب اس پر ٹھیک ٹھاک بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے وہ جس نے اس کو ہمارے بس میں کر دیا اور ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو قابو کر سکتے اور بالیقین ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔" (ان آیات میں بھی انسانوں کے لیے استواء کا لفظ استعمال ہوا ہے) تو مخلوقات کا استواء ناممکن ہے کہ اللہ عزوجل کے استواء علی العرش کی مانند ہو۔کیونکہ اللہ عزوجل کی طرح کوئی چیز نہیں ہے﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ اور بہت بڑی غلطی ہے ان لوگوں کی جو اس کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ "اللہ اپنے عرش پر مسلط اور غالب ہوا۔" یہ بات اللہ کے کلمات کو اپنے مقام سے پھیرنے کی بات ہو گی جسے تحریف کہتے ہیں۔یہ مفہوم صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے تابعین بالاحسان کے اجماع کے سراسر خلاف ہے اور بہت غلط معانی کو مستلزم ہے۔کسی صاحب ایمان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ عزوجل کے متعلق ایسی نامناسب بات اپنی زبان پر لائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے: إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴿٣﴾(الزخرف 43؍3) "ہم نے اس کو عربی کا قرآن کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو۔" تو " اسْتَوَىٰ عَلَى " کے معنیٰ عربی زبان میں بلند ہونا اور قرار پکڑنا ہیں۔تو جب اللہ عزوجل کے لیے یہ صفت آئی ہے تو اس کے معنیٰ یہی ہیں کہ "وہ عرش پر بلند ہوا،اس خاص انداز میں بلند ہونا جو اس کی عظمت و جلال کو لائق ہے۔" اگر کوئی "استویٰ" کے معنیٰ "استولیٰ" (غالب ہونا) کرتا ہے تو اس نے ان کلمات میں تحریف کی اور لغات قرآن کی نفی کا مرتکب ہوا اور غلط اور باطل معنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ علاوہ ازیں سلف صالحین (صحابہ کرام) اور ان کے تابعین عظام کا بھی انہی معانی پر اجماع ہے۔ان میں سے کسی ایک سے بھی کوئی لفظ اس تفسیر کے خلاف نہیں آیا ہے۔جب قرآن و حدیث کے الفاظ کی تفسیر میں سلف سے کوئی لفظ ظاہر کے خلاف نہ آئے تو یہ دلیل ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے اس کے ظاہر ہی پر محمول کیا ہے اور وہ اس کے ظاہر ہی کا عقیدہ رکھتے تھے۔اگر کوئی یہ پوچھے کہ آیا سلف میں سے کسی سے " اسْتَوَىٰ عَلَى " کی تفسیر صراحت کے ساتھ بھی منقول ہے تو اس کا جواب ہے کہ ہاں سلف سے یہ منقول اور ثابت ہے۔اور اگر بالفرض ان سے بصراحت منقول نہ بھی ہو تو اصل قاعدہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے الفاظ سے وہ ظاہری معانی ہی مراد لیے جاتے ہیں جو عربی زبان میں مستعمل ہوں اور سلف بھی یہی مراد لیتے ہیں۔ استواء کے معنیٰ غلبہ اور تسلط لیے جائیں تو اس کے لازمی غلط نتائج: 1۔ اگر استواء کے معنیٰ (بلند ہونے اور قرار پکڑنے کے علاوہ) استیلاء یعنی غلبہ اور تسلط لیے جائیں تو اس کا