کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 745
سے کارکنوں کو ان کا حق الخدمت بذریعہ بنک ادا کیا جاتا ہے۔میرا کام یہ ہوتا ہے کہ ان رقوم کے چیک خزانہ میں جمع کراتی ہوں،پھر وہاں سے رقم بذریعہ چیک واپس آتی ہے۔میرے اس کام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا میں اپنا تبادلہ اسی ادارے کے کسی اور شعبے میں کرا لوں؟ جواب:اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے،اور آپ کو کوئی ضرورت نہیں کہ کسی اور شعبے میں اپنا تبادلہ کرائیں۔بنک اس محکمے میں صرف اس شخص کے وکیل کا کرتا ہے،جو چیک لکھتا ہے کہ یہ چیک محکمے کے فلاں حساب میں جمع کیے جائیں اور یہ سارا مال حکومت ہی کا ہوتا ہے۔اور حکومتی محکموں کے مختلف شعبوں کے مابین کوئی سودی لین دین نہیں ہوتا ہے اور یہ مال سراسر حکومت کا مال ہوتا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:میری بیوی نے بفضلہ تعالیٰ سکول میں تدریس چھوڑ دی ہے اور اب وہ گھر داری میں لگ گئی ہے،لیکن ہوا یہ کہ ایک محکمہ جاتی تحقیق کے سلسلے میں اسے ایک گواہی کے لیے طلب کیا گیا جو مدیر کے خلاف تھی،کہ اس کا اخلاق کیسا ہے،تو بیوی نے اللہ کی قسم اٹھا کر کہا کہ وہ اچھے اخلاق کا مالک ہے۔چونکہ یہ ان معاملات میں نئی تھی اس لیے اس طرح سے کہہ دیا،حالانکہ وہ مدیر فی الواقع کوئی اچھے اخلاق و کردار کا مالک نہیں ہے۔تو اس گواہی کا کیا حکم ہے اور اس کا کفارہ کیا ہے؟ جواب:اسے چاہیے کہ کثرت سے استغفار کرے اور اللہ عزوجل سے معافی مانگے اور دیگر اعمال صالحہ کثرت سے کرنے کی کوشش کرے،اور آپ بھی اس کے لیے دعا کریں اور اس کے علاوہ اس کے ذمے کچھ نہیں ہے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال؛ عورتوں کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا،اس بارے میں اسلام کی کیا تعلیمات ہیں؟ جواب:اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورت کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا مذموم و مکروہ اختلاط کا باعث ہوتا ہے۔اجنبی مرد ان عورتوں کے ساتھ خلوت میں ہوتے ہیں،جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔اور یہ انداز عمل ان صریح نصوص کے بھی خلاف ہے جو اسلام نے عورتوں کو دئیے ہیں کہ عورتیں اپنے گھروں میں رہیں۔انہیں چاہیے کہ ایسے کام اختیار کریں جو فطرتا ان کے ساتھ خاص ہیں۔جن میں وہ مردوں کے ساتھ اختلاط سے محفوظ رہتی ہیں۔عورتوں کے ساتھ علیحدگی اور خلوت میں ہونے کی حرمت،ان کی طرف نظر کرنے کی حرمت اور ایسے اعمال و وسائل سے دور رہنے کے وجوب کے دلائل جو ان حرام اعمال و نتائج تک پہنچاتے ہیں،انتہائی صریح اور صحیح ہیں،اور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں،جن کا تقاضا ہے کہ ایسے اختلاط اور میل جول سے بچنا واجب ہے جس کے نتائج کسی طرح بھی قابل مدح نہیں ہو سکتے۔مثلا اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ