کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 738
سوال:ایک شخص دکاندار کو اپنا سونا بیچتا ہے،اور پھر اس سے اسی رقم کے قریب قریب اس کا سونا خریدتا ہے۔خریدار اپنے خریدے گئے سونے کی ادائیگی فروخت کیے گئے سونے سے کر دیتا ہے،مگر دکاندار سے اپنا خریدا ہوا سونا وصول نہیں کرتا۔اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:یہ جائز نہیں ہے،کیونکہ اس نے اپنی چیز قیمتا فروخت کی اور پھر اس کے عوض وہ چیز خریدی جیسے ادھار بیچنا جائز نہیں۔فقہاء نے اس کے حرام ہونے کی صراحت کی ہے۔کیونکہ یہ ان ممنوعہ بیوع کے لیے حیلہ بن سکتی ہے،جنہیں اس انداز میں وصول کیے بغیر ادھار نہیں بیچا جا سکتا،بالصوص جب کہ اس میں ربا الفضل یا ربا النسیئہ ہو سکتا ہے۔ربا الفضل یہ ہے کہ سونا چاندی یا مطعومات کو زیادتی کے ساتھ بیچا جائے۔اور ربا النسیئہ (ادھار کا سود) یہ ہے کہ جن چیزوں کو بیع کے وقت قبضہ میں لینا شرط ہے،اسے وصول کرنے میں تاخیر کر دی جائے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:بعض سونے کے خریدار نئے سونے کا بھاؤ پوچھتے ہیں۔بھاؤ معلوم ہونے پر وہ اپنا مستعمل سونا پیش کر دیتے ہیں اور اسے فروخت کرتے ہیں۔مگر رقم وصول کرتے وقت اسی رقم سے نیا سونا خرید لیتے ہیں۔اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:اس میں کوئی حرج نہیں ہے،بشرطیکہ پہلے سے ایسا کوئی پروگرام طے نہ کیا گیا ہو۔امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس صورت میں خریدار کو چاہیے کہ وہاں سے چلا جائے اور کہیں اور سے اپنے مطلب کی چیز خرید لے۔اگر نہ ملے تو اس کے پاس دوبارہ آ کر خرید کر لے۔یہ اس لیے کہ حیلہ کے شبہ سے نکل جائے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر کوئی سونے وغیرہ کی کوئی چیز خریدے اور شرط کر لے کہ اگر پسند نہ آئی تو واپس کر کے اپنی قیمت لے جائے یا اس کے بدلے کچھ اور خرید لے گا۔اور بعض اوقات ایسے ہوتا ہے کہ گھر دور ہوتا ہے تو اسی دن یا اگلے دن واپس آنا مشکل ہوتا ہے۔تو اس صورت میں صحیح شرعی طریقہ کیا ہے؟ جواب:اس میں افضل یہ ہے کہ سودا مکمل کرنے سے پہلے وہ اس چیز کو اگر پسند آ جائے تو دکان پر آ کر اس کا سودا کر لے۔لیکن اگر خرید لے اور سودا مکمل کر لے پھر شرط کرے کہ اگر پسند آ گیا تو بہتر ورنہ واپس کر دے گا،تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض نے اسے جائز کہا ہے کہ مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔اور بعض نے اس کا انکار کیا ہے کہ یہ شرط ایک حرام کو حلال بناتی ہے۔اپنی بیع مکمل ہونے سے پہلے فریقین کا جدا جدا ہونا۔ پہلا قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے اور دوسرا علمائے حنابلہ میں مشہور ہے یہ کہ ہر وہ چیز جس میں بیع میں قبض کر لینا شرط ہے،اس میں اختیار کی شرط درست نہیں ہے۔اس لیے جو انسان شبہات سے بری رہنا چاہتا ہے اس کے لیے یہی ہے کہ پہلا طریقہ اختیار کرے یعنی چیز لے جائے اور مشورہ کر لے،بعد میں بیع مکمل کرے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اس صورت میں کیا حکم ہے کہ بعض دکاندار شرط کرتے ہیں کہ اگر آپ اپنا سونا ہمیں بیچنا چاہتے ہیں تو نیا