کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 716
حرام ہے۔لیکن اگر اجزائے بدن کی تصویر بنائے جیسے کہ صرف ہاتھ یا صرف سر وغیرہ تو اس میں کوئی نہیں۔ البتہ کیمرے کی تصویر،جس میں ہاتھ کی کوئی خاص حرکت نہیں ہوتی،تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔کیونکہ یہ "تصویر" میں داخل نہیں ہے۔[1] لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیمرے سے یہ تصویر کس مقصد کے لیے لی گئی ہے۔اگر مقصد حرام ہو تو یہ تصویر لینا بھی حرام ہو گا،کیونکہ وسائل کا حکم مقاصد کے ساتھ ہے۔اور تصویر صرف یاد گیری کے طور پر سنبھال سنبھال کے رکھنا حرام ہے۔کیونکہ نبی علیہ السلام نے بتایا ہے کہ "فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے ہیں جس میں تصویر
[1] راقم مترجم سمجھتا ہے کہ کہیں اس فتویٰ کی تحریر میں کوئی تحریف نہ ہو گئی ہو۔واللہ اعلم۔بہرحال اس میں بہت بڑا تسامح ہے۔ہم انتہائی ادب واحترام کے ساتھ،ان بزرگوں سے جو کیمرے کی تصویر کو جائز کہہ دیتے ہیں،پوچھ سکتے ہیں کہ"لغت،عرف عوام اور شریعت میں اس چیز کا نام کیا ہے؟ظاہر ہے کہ تصویر کے علاوہ اس کا اور کوئی نام نہیں۔اگر یہ تصویر ہی نہیں تو پھر اسے بطور یادگار اپنے پاس رکھنا یا دیواروں پر لٹکانا کیوں ناجائز ہے؟جبکہ آپ اسے"تصویر"ہی کے مفہوم سے خارج کررہے ہیں۔نیز یہ کہنا کہ"اس میں ہاتھ کا عمل دخل نہیں"یہ بات محض وہم ہے۔کیمرے میں ہاتھ کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ہاتھ ہی اسے سیٹ کرتا ہے۔ہاتھ اور نظر ہی سے اس کا رخ متعین ہوتا ہے۔ہاتھ ہی بٹن دبا کر کیمرے کا عمل شروع کرتا ہے۔ہاتھ ہی اس کے جاری عمل کو بند کرتا ہے۔اور ہاتھ ہی اس میں فلم ڈالتا اور پھر اس کا حاصل باہر نکالتا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے یہ کارروائی دنوں اور گھنٹوں میں ہوتی تھی،اور اب دور جدید کی ترقی اور مشینوں نے اسے منٹوں اور سیکنڈوں میں کردیا ہے۔ تصویر کا موجودہ بلوائے عام کہ شناختی کارڈ،پاسپورٹ،کرنسی اور دیگر دستاویزات میں اس کی اہمیت اور ضرورت بہت زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ تو اس سے یہ حلال نہیں بن جاتی ہے۔صرف اضطراری اور مجبوری کی کیفیت میں اس کا بنوانا،حاصل کرنا اور محفوظ رکھنے کی رخصت ہے 'لایکلف اللّٰه نفسا الا وسعھا 'اس میں بندے کو اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ استغفار کرنا چاہیے اور حتی الامکان احتراز بھی،اور اصحاب حل وعقد کو اس مسئلے کی شرعی حیثیت واضح کرنی چاہیے۔اور دل سے ان اعمال کو انتہائی مبغوض اور مکروہ جاننا واجب ہے۔اوربغیر معقول وجہ کے تصویروں کو اپنے پاس سنبھال کررکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔اس نیت کے ساتھ ان شاءاللہ بندے کا یہ گناہ معاف کردیا جائے گا۔لیکن اگر دل میں اس کے متعلق کوئی نرم گوشہ ہوا تو آدمی ان لوگوں کے ساتھ شریک گناہ ہوگا جنہوں نے اسے مسلمانوں پر مسلط کیا ہے۔ونسال اللّٰه العافیۃ۔ اور وہ اسباب ومقاصد جن کے لیے تصاویر کو ناگزیر سمجھا جانے لگا ہے،وہ پہلے بھی تھے مگر مسلموں اور غیر مسلموں سب نے ان ضروریات کا حل تصویر کے علاوہ میں تلاش کیا ہوا تھا۔بلکہ اب بھی ان ہی ذرائع کے استعمال کو زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔میرااشارہ ہے فنگر پرنٹس کی طرف یعنی انگوٹھے اور انگلیوں کے نشانات۔یہ نشانات علامتی مقاصد کے لیے انتہائی باعتماد اور کام یاب ہیں،جبکہ تصویر بسااوقات ناکام ثابت ہوتی ہے۔چونکہ بے خدا تعلیم نے اللہ کی حدود کی پاسداری کو بے قیمت بنانے میں بڑاکرداراداکیاہےاورتصویروں میں کشش پیدا کردی ہے،تو ہمارے بعض اصحاب علم ان کی کثرت سے متاثر ہوکر اس کو حلال بنانے کے درپے ہوگئے ہیں جو قطعاً درست نہیں ہے۔الغرض تصویر جان داراشیاء کی شریعت نے حرام ٹھہرائی ہے اور بہرصورت حرام ہے۔البتہ بعض صورتوں میں ان کا مواخذہ نہیں ہے مثلاً جب ان کی اہانت ہوتی ہے۔واللّٰه اعلم وعلمہ اتم۔کتبہ عمر فاروق السعیدی فضیلۃالشیخ کا ایک اور فتویٰ اس بارے میں"حرام لباس"کے باب میں بھی گزرچکاہے۔