کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 71
مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی ملکیت محدود و مقید ہوتی ہے اور انسان اپنی زیر ملکیت میں اتنا ہی تصرف اور عمل دخل رکھتا ہے جتنا کہ اللہ نے اسے دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو (اگرچہ انسان اس کا مالک ہوتا ہے) ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے: وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيَامًا (النساء 4؍5) "اور اپنے مال بے عقلوں کو مت دے دیا کرو جسے کہ اللہ نے تمہاری گزران قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے۔" یہ دلیل ہے کہ انسان کی ملکیت ناقص اور محدود ہے،بخلاف اللہ عزوجل کی ملکیت کے،کہ اس کی ملکیت کامل،شامل اور عام ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے،اور جو کرے اس سے اس کے متعلق پوچھا نہیں جا سکتا جبکہ مخلوق سے پوچھا جاتا ہے۔ سوم:۔۔تدبیر و انتظام کائنات میں بھی اللہ تعالیٰ اکیلا اور منفرد ہے۔وہی اس زمین و آسمان کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴿٥٤﴾(الاعراف 7؍54) "خبردار!اسی کی ہے خلقت اور اسی کا ہے حکم،برکت والی ہے ذات اللہ کی جو پالنے والا ہے تمام جہان والوں کا۔" اللہ عزوجل کا یہ انتظام اور اس کی تدبیر ہر اعتبار سے کامل اور مکمل ہے کہ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا اور نہ کوئی اس کی مخالفت کر سکتا ہے۔مخلوقات کو جو کسی قدر کچھ انتظام و تدبیر حاصل ہے جیسے کہ انسان اپنے اموال اور خدام وغیرہ میں کرتا ہے تو یہ انتظام و تدبیر انتہائی ناقص،محدود اور کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے۔ان تفصیلات سے واضح ہوا کہ "توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خلق،ملک اور تدبیر و انتظام میں ایک اکیلا جاننا چاہیے ۔" قسم دوم،توحید الوہیت:۔۔یہ ہے کہ "ایک اکیلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو عبادت کا مستحق سمجھا جائے" یعنی انسان اس کے ساتھ کسی اور کی کوئی عبادت نہ کرے اور نہ اس کا تقرب چاہے جیسے کہ اللہ عزوجل کی عبادت کی جاتی ہے یا اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ توحید کی یہی وہ قسم ہے جس میں مشرکین گمراہ تھے،اور ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا تھا اور ان کے خون،مال اور علاقے حلال جانے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔انبیاء علیہم السلام کو یہی دعوت دے کر بھیجا گیا اور کتابیں نازل کی گئیں،اگرچہ توحید ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات بھی اس کے ساتھ ہیں مگر انبیاء کا اپنی قوموں کے ساتھ بڑا نزاع اسی توحید الوہیت میں رہا ہے۔یعنی انسان عبادت کی غرض سے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو،نہ کسی مقرب فرشتے کی طرف،نہ کسی نبی اور رسول کی طرف،نہ کسی ولی اور صالح