کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 706
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر رہے ہیں،فرمایا:ہاں،اگر چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھے آپ کے ہاں قربت نہ ہوتی تو شاید میں یہ کچھ نہ دیکھ پاتا۔آپ علیہ السلام اس جھنڈے کے پاس آئے جو کثیر بن صلب رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس تھا،تو آپ نے (عید کی) نماز پڑھائی اور پھر خطبہ دیا۔اس میں انہوں نے کسی اذان یا اقامت کا ذکر نہیں کیا۔پھر آپ نے صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی تو عورتوں نے اپنے ہاتھ جلدی جلدی اپنے کانوں اور اپنی گردنوں کی طرف بڑھانا شروع کیے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے کہا تو وہ ان کی طرف آئے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ گئے۔[1] صحیح بخاری میں بھی الفاظ اسی کے قریب ہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:منگنی کی انگوٹھی کا کیا حکم ہے؟ جواب:منگنی کی انگوٹھی میں بحیثیت انگوٹھی کے تو کچھ نہیں ہے،سوائے اس اعتقاد کے جو لوگوں نے اپنے ذہن میں بٹھا رکھا ہے (وہ قطعا درست نہیں ہے) یعنی پیغام نکاح دینے والا انگوٹھی پر اپنی منگیتر کا نام لکھواتا ہے اور وہ لڑکی اپنے ہونے والے شوہر کا نام لکھواتی ہے اور پھر وہ ایک دوسرے کو پہناتے ہیں،اور دونوں طرف سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے زوجین میں ارتباط و محبت ہو گی تو اس طرح یہ انگوٹھی پہنانا حرام ہو جاتا ہے کیونکہ اس سے انسان کا تعلق ایک ایسی چیز سے ہو جاتا ہے جس کی شرعی اور عقلی لحاظ سے بھی کوئی اصلیت نہیں ہے۔نیز یہ بھی کسی صورت میں جائز نہیں کہ لڑکا اپنے ہاتھ سے لڑکی کو یہ انگوٹھی پہنائے،کیونکہ وہ تا حال اس کے لیے اجنبی ہے،بیوی نہیں بنی۔بیوی تو وہ عقد کے بعد ہی بنے گی۔[2] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:انگوٹھی بالخصوص منگنی کی انگوٹھی کا کیا حکم ہے جبکہ وہ چاندی،سونے یا کسی اور قیمتی دھات کی ہو؟ جواب:مرد کے لیے سونا پہننا،وہ انگوٹھی ہو یا کچھ اور،کسی صورت جائز نہیں ہے،کیونکہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے مردوں کے لیے حرام بتایا ہے۔آپ نے ایک بار ایک شخص کے ہاتھوں میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اسے اتار پھینکا اور فرمایا: "يعمد أحدكم إلى جمرة نار فيضعها فى يده" "(تعجب ہے) کہ تم میں سے ایک آگ کے انگارے کا قصد کرتا اور پھر اسے اپنے ہاتھ میں رکھ
[1] صحیح بخاری،کتاب صفۃ الصلوۃ،باب وضوءالصبیان ومتی یجب علیھم الغسل والطہور۔۔۔۔۔،حدیث:825وایضا،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب ماذکر النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم وحض علی اتفاق اھل العلم،حدیث:6894وسنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب ترک الاذان فی العید،حدیث:1145۔ [2] از مترجم:فی الواقع یہ ایک لایعنی اور لغو رسم ہے،جس کی خیر القرون میں کوئی اصل نظر نہیں آتی ہے۔اس سے احتراز ہی افضل واعلیٰ ہے۔تاہم اگر مذکورہ بالا ممنوعات نہ ہوں اور بطور علامت خطبہ اور مبادی عقد کے ہدیہ کے معنی میں یہ ہوجائے تو مباح ہے۔لیکن لڑکی والوں کی طرف سے اپنے ہونے والے داماد کو"سونے کی انگوٹھی"پہنانا تو گویا اسے آگ کا چھلہ پہنانا ہے۔جیسے کہ اگلے فتویٰ میں اس کا بیان آرہا ہے۔