کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 692
"جو ہمارے غیر کی مشابہت اپنائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔" [1] اور مسئلہ مشابہت کا ضابطہ یہ ہے کہ ایسی تمام عادات جو کفار ہی سے خاص ہوں،ان کا اپنا لینا ہم مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے۔کیونکہ یہ ظاہری مشابہت دلیل ہے کہ باطن میں ان سے محبت ہے۔(صالح بن فوزان) سوال:ٹیڑھی مانگ نکالنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:بالوں میں مانگ نکالنے میں سنت یہ ہے کہ پیشانی کے درمیان سے سر کے اوپر کی طرف مانگ نکالی جائے۔سر کے بالوں کی کئی جہات ہیں۔کچھ بال آگے کی طرف ہوتے ہیں،کچھ پیچھے کی طرف اور کچھ دائیں اور بائیں،تو مانگ میں سنت یہی ہے کہ سر کے درمیان سے ہو۔دائیں بائیں مانگ نکالنا سنت نہیں ہے۔ہو سکتا ہے اس میں غیر مسلم سے مشابہت ہو،اور ممکن ہے یہ اس فرمان نبی کی وعید میں آتی ہو: "صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا بَعْدُ:قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ۔ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا " "دو قسم کےلوگ دوزخی ہیں،میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے۔ایک قوم تو وہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دُمیں ہوں،ان سے لوگوں کو مارتے پھرتے ہوں گے۔اور دوسری عورتیں ہوں گی،(بظاہر) لباس پہنے ہوں گی مگر (درحقیقت) ننگی اور بے لباس ہوں گی،مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی،ان کے سر بختی اونٹوں کے جھکےکوہانوں کی مانند ہوں گے،یہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو ہی پا سکیں گی۔"[2] بعض علمائے کرام نے ' المائلات المميلات' کی تفسیر یہی ٹیڑھی مانگ کی ہے کہ وہ اپنی مانگ ٹیڑھی نکالتی ہوں گی اور دوسروں کی اسی انداز میں نکالتی ہوں گی مگر حق تشریح ان کلمات کی یہ ہے کہ یہ عورتیں دین و حیا کے دائرے سے ہٹی ہوئی ہوں گی اور دوسروں کو اس سے ہٹانے والی ہوں گی۔[3] واللہ اعلم۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:بعض طالبات جن کے بال نرم و ملائم ہوتے ہیں وہ انہیں عمدا مصنوعی طریقے سے خشک اور کھردرے سے
[1] سنن الترمذی،کتاب الاستئذان،باب کراھیۃ اشارۃ الید بالسلام،حدیث:2695ومسند احمد بن حنبل:2؍199،حدیث:6875۔ [2] صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساءالکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:2؍355،حدیث:8650وصحیح ابن حبان:16؍500،حدیث:6461۔ [3] مترجم عرض گزار ہے کہ یہ حکم عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی ہے۔کیونکہ یہ معروف تفسیری وفقہی قاعدہ ہے کہ"العبرۃ بعموم اللفظ لابخصوص السبب"یعنی احکام میں اعتبار عام لفظوں کا ہوتا ہے،نہ کہ ان کے خاص سبب کا۔"